لوری
ایک زلزلہ زدہ لڑکی کے منظوم الفاظ ۔۔۔
ناصر ملک
ڈائریکٹر: آرٹ لینڈ ۔ گرلز کالج روڈ چوک اعظم۔ ضلع لیہ
فون: 0606-372557
چلو اِک بار پھر سے ہم
اجل کے سرخ پنجوں سے نکل کے زندگی اَوڑھیں
یہ مٹی اپنے پیاروں نے لہو سے گوندھ رکھی ہے
اِسی مٹی میں پتھروں کو پَرو کر ہم نئے گھر کی بنا ڈالیں
چلو ماضی کی یادوں میں نیا سپنا سجا ڈالیں
انہی سنگلاخ پتھروں نے مرے ’’بابا‘‘ کو نگلا ہے
اِسی ملبے نے میری ’’ماں ‘‘ کو مجھ سے چھین رکھا ہے
اِسی ٹوٹے ہوئے دَر نے مرا ’’لالہ‘‘ چبا ڈالا
اِسی کونے میں ’’باجی ‘‘ نے فنا کا ذائقہ چکھا
چلو اُٹھو کہ ان بکھری ہوئی چیزوں کو پھر جوڑیں
یہیں سے راستہ ڈھونڈیں ، اِنہی پتھروں سے سر پھوڑیں
درختوں پر لٹکتی روٹیوں سے بھوک اچھی ہے
ہوس آلود نظروں سے بھلی ہے گود پتھر کی
یہ پتھر مار دیتے ہیں مگر نوچا نہیں کرتے
یہ انسانوں سے بہتر ہیں، بُرا سوچا نہیں کرتے
چلو اُٹھو مرے بھیا! چلو جاگو مرے بھیا!
اُٹھو تنکے اکٹھے کر کے اپنا آشیاں جوڑیں
کہ برسوں بعد پہلے کی طرح سب کچھ سجا ہوگا
مگر ’’امی‘‘ نہیں ہوگی، یہاں ’’بابا‘‘ نہیں ہوگا
ہائے ’’باجی‘‘ نہیں ہوگی، مرا ’’لالہ ‘‘ نہیں ہوگا
چلو اُٹھو مرے بھیا! اجل سے بھاگ جاتے ہیں
کھلونے ٹوٹ جاتے تھے جنہیں ہم جوڑ لیتے تھے
گھروندے ٹوٹ سکتے ہیں جنہیں اَب جوڑنا ہوگا
یہی پتھر ہمیں اپنوں سے اِک دن جا ملائیں گے
اِنہی پتھروں سے جیون بھر مقدر پھوڑنا ہوگا
چلو اُٹھو مرے بھیا! اُٹھو جاگو مرے بھیا!
اجل کے سرخ پنجوں سے نکل سے زندگی اَوڑھیں
***
ناصر ملک
ڈائریکٹر: آرٹ لینڈ ۔ گرلز کالج روڈ چوک اعظم۔ ضلع لیہ
فون: 0606-372557