غزلیں
ڈاکٹر سرور ساجد
جو اب تک ہو نہیں پایا وہی اک کام ہونا چاہیے تھا
دیارِ و دشت میں اک ربط باہم عام ہونا چاہیے تھا
عجب فرضی سی اک پختہ خیالی کی اذیت میں گھرا ہے
اگر دل ہے تو اس میں کچھ خیال خام ہونا چاہیے تھا
قدم کی کامیابی سرحد پستی کو روشن کر رہی ہے
بلندی کی ہوس تھی تو مجھے ناکام ہونا چاہیے تھا
تعجب ہے کہ دل کی بے کلی کچھ اور بڑھتی جا رہی ہے
ملن کے بعد اس سے کچھ نہ کچھ آرام ہونا چاہیے تھا
تمہیں عاشق فریبی میں ملی شہرت زمانے میں اگرچہ
غزل، خوشبو ،دھواں، چشمہ تمہارا نام ہونا چاہیے تھا
نشہ ، تغمہ ،بدن ، خوشبو ہوئے ہیں مفت میں بدنام ساجدؔ
مری بربادی کا بس اس کے سرالزام ہونا چاہے تھا
****
دیکھتے دیکھتے تم دیکھنا ہو جاؤ گے
وہ بھی دن دور نہیں فاصلہ ہو جاؤ گے
میں تری راہ کا پتھر ہی سہی تیرے لیے
کچھ نہ بن پاؤں گا تو آئینہ بن جاؤں گا
کچھ حریفوں سے میں اس طرح سے لوں گا بدلہ
نقش قرطاس پہ اک دیر پا بن جاؤں گا
میں نے قطرے کو بھی دیکھا ہے سمندر بنتے
نقش پا آج ہوں کل راستہ بن جاؤں گا
اتنی تیزی سے بدلنے لگے چہرے ہر ایک
سب سے ممکن ہے کہ ناآشنا بن جاؤں گا
ابکے پھیلوں گا تو ساجدؔ ہے سمٹنا مشکل
اور سمٹوں گا تو اک دائرہ بن جاؤں گا
****
Dr. Sarwar Sajid
Nazeer Khan lane, Main Road Ranchi.