نوشاد مومن، کلکتہ
غزلیں
یہ دستور محبت ہے، سنو ایسا نہیں کرتے
سرِ محفل محبت کا کبھی چرچا نہیں کرتے
جنہیں معلوم ہے شہرت یہاں یکساں نہیں رہتی
ذرا سی کامیابی پر وہ اترایا نہیں کرتے
رہے پیش نظر منزل ، تمنا گر ہے منزل کی
سفر ہے شرط تو تھک کر کہیں بیٹھا نہیں کرتے
کہیں ایسا نہ ہو زد میں تمہارا سر ہی آجائے
بلندی کی طرف پتھر کبھی پھینکا نہیں کرتے
جو ممکن ہو نہیں سکتا وہ مومنؔ کردکھاتے ہیں
زمانے کے حوادث کی وہ کچھ پروا نہیں کرتے
غزل
اس کی آنکھ میں پانی ہے
عالم کو حیرانی ہے
ذرہ ہوں میں ، میرا کیا ؟
لاکھ ہوا طوفانی ہے
میری یاد کا حصہ تم !
کیسی یہ نادانی ہے
بھیس بدل لو جتنے بھی
صورت تو پہچانی ہے
جب سے گیا ہے روٹھ کے وہ
یہ دنیا بے معنی ہے
لنگر کھولو تو جانیں
دریا میں طغیانی ہے
مومنؔ رسوا چاروں اُور
شان مگر سلطانی ہے