الثلاثاء, 22 كانون2/يناير 2013 12:51

غزل کائنات : (اسلم بدر) جمشید پور

Rate this item
(0 votes)

بہت ہی عزیز مہتاب عالم پرویز ! محبتیں، دعائیں

تمہارے ویب سائیٹ اور ای میگزین کی خبر نے باغ باغ کر دیا۔خدا کرے تمہارا یہ میگزین ’جدید ادب‘، ’کائنات‘ اور ’شعر و سخن ‘ جیسے ای میگزین کا ہم پلہ بلکہ ان سے بھی بہتر ثابت ہو۔
بڑی مشکلوں سے سنبھالا لیا تھا۔مگر ادھر کچھ دنوں سے جذبہ و فکر میں پھر سے بھنور پڑنے لگا ہے۔ دعا کرو کہ ڈوب نہ جاؤں۔بس یوں سمجھ لو کہ ان دنوں ایک ایسے بھنور سے دوچار ہوں جس کی محوری گردش کا بھی سامنا ہے اور جو مجھے اپنے مرکز کی طرف بھی لگاتار کھینچ رہا ہے۔ کشتئ جاں کے ڈوب جانے کا ہمہ وقت خوف طاری رہتا ہے، خوف سے لرزہ بھی۔مگر اسی لرزش میں ایک جمالیاتی تھرتھری بھی شامل ہے۔ جمالیاتِ کائنات کی تھرتھراہٹ۔ لہر، موج یا بھنور بغیر بوند کی تھرتھراہٹ کے وجود میں آ بھی تو نہیں سکتی۔
’غزل کائنات‘ کے زیر عنوان (مختلف ذیلی عنوانات کے ساتھ) کچھ غزلیں، یا پھر نظمیں یا تم اسے کچھ بھی کہہ لو، وہ کچھ تمہارے لئے بھیج رہا ہوں۔ اسے تم جمالیاتی حس کہہ لو یا حسی جمالیات، درکی حس کہہ لو یا حسی ادراک۔ میرے نزدیک احساس و اداراکِ جمال ایک ایسی کیفیت سے گزرنے کا نام ہے جہاں رنگ نغمہ ہو جائے، نغمہ خوشبو اور خوشبو بدن۔سب کچھ الگ الگ بھی، ایک بھی اور ایک ہی سب کچھ بھی۔خدا کے لئے یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ میں کثرت و وحدت (یا وحدت الوجود )کے فلسفیانہ افکار و مسائل میں الجھ کر رہ گیا ہوں۔
یہ جو کچھ بھی ہے تمہارے اور تمہارے ویب رسالے کے لئے ہے اور قطعی غیر مطبوعہ ہے۔ مزاج میں بت شکنی شامل ہے، مگر آستین کے لئے ایک آدھ بُت تو میں نے بھی تراش رکھا ہے۔ نماز پڑھتا ضرور ہوں مگر’رفع یدین‘ کا قائل نہیں ہوں۔ یہ جو کچھ بھی ہے ، ادر کسی لائق نہیں بھی ہے تو شامل اشاعت کر لو ، بحث کے کچھ دروازے تو کھل ہی جائیں گے۔ اس سعی ، یا سعی رائگاں کے متعلق مجھے تمہاری اور قارئین کی رائے کا انتظار رہے گا۔
(اسلم بدر) جمشید پور.


 

غزل کائنات


رنگ

گہری سیاہیوں میں تھی روشن دعائے رنگ
سسکاریاں سمیٹ رہی تھی نوائے رنگ

اک حرف بے صدا میں عجب تھرتھرائے رنگ
لرزاں سی ایک بوند ہوئی آبنائے رنگ

آب و ہوا کو ایسی ملی لذت وصال
ہلچل سی آبلوں میں ہوئی گنگنائے رنگ

اک داستاں ہے رنگ ہزاروں لئے ہوئے
پھیلا ہوا ہے رنگِ صدا یا صدائے رنگ

ڈھانپے ہوئے زمین کے گرد و غبار کو
بے رنگ سی فضا میں چھپی ہے ردائے رنگ

چٹکار بے شمار شگوفوں کی ہر طرف
ہر لمحہ اپنے نطق کا جادو جگائے رنگ

اپنی ہی دُھن میں مست مگن بھیگے سبزہ زار
درویشِ سبز پوش ہوئی ہے ردائے رنگ

تھا آئینہ اندھیرے گھنے جنگلوں کے بیچ
روشن شرارِ سنگ ہوا جگمگائے رنگ

سانسوں میں بولتی ہوئی خوشبو کی نغمگی
آواز نے گلاب لبوں سے چُرائے رنگ

ہر نقش پر ٹھہرتی ہوئی حیرتِ نگاہ
ہر گام کوئی نافۂ آہو چھپائے رنگ

چڑیوں کا ایک غول اتر آیا پیڑ پر
بے کیف شاخِ شام نے چاہا چھپائے رنگ

آنچل دھنک کا کھینچ لے آنکھوں پہ پیلی دھوپ
برسات کی اُمس میں برہنہ نہائے رنگ

کچھ تو نظر کی دھوپ میں مرجھا گئے نقوش
کچھ آتشِ بدن کی لپک نے جلائے رنگ

تاروں کو نیند آئے تو کھلنے لگیں گلاب
بجھنے لگیں چراغ تو لوری سنائے رنگ

سورج کی دستکوں سے بھی آنکھیں کُھل سکیں
پھیلی تھی دشتِ خواب میں بوئے صبائے رنگ

سجنے لگے جو حسنِ سماعت نگاہ میں
کھلتی کلی سے آئے گی آوازِ پائے رنگ

کھِل جائے شاخ دل پہ تو نغمے سنائی دیں
ملبوس تک ہی رنگ نہ اترے برائے رنگ

چھُو لے صبا کے ہاتھ تو مٹی چمک اٹھے
کچھ پھول ہی نہیں ہیں فقط آشنائے رنگ

اک آنچ ہو نصیب تو پتھر بھی موم ہے
لفظوں کے ریگزار میں لہجہ بہائے رنگ

دھندلی سی اک کرن بھی اندھیرے کو چیر دے
بنجر زمین میں بھی امیدیں اُگائے رنگ

اپنے بھی رنگ کا ہے اسی خاک میں نمو
پھر سبز شاخِ درد سے کیوں ٹوٹ جائے رنگ

کب تک نظر بہلتی رہے مور ناچ سے
کچھ دیر نقشِ پا کا بھی صدمہ اُٹھائے رنگ

اس خوف سے کہ کتنے کھنچے آئیں گے عقاب
آنگن سے خوشبوؤں کے پرندے اُڑائے رنگ

خوشبو کو فکر یہ کہ کوئی اور گھر ملے
وسعت سما و ارض کی ہے تنگنائے رنگ

دونوں طرف خیال کا بے نقش کینوس
جو ابتدائے رنگ وہی انتہائے رنگ

احساس قید خانہ ہے زنجیر ہے شعور
کتنے ہیں اور رنگ میاں ماورائے رنگ

دیکھا تو کائنات کی تصویر بن گئی
ہم نے تو اپنے دھیان میں یونہی بہائے رنگ


 

نغمہ

خوابِ شب، صبح کی دعا نغمہ
مثلِ غنچہ چٹک گیا نغمہ

ارتعاشِ حباب، آبِ حیات
سیلِ صد رنگ، جسم کا نغمہ

دم بدم ڈوبتی ابھرتی موج
ہر نئی سانس اک نیا نغمہ

وقت تاروں کی تھرتھری پیہم
تھرتھراہٹ سمیٹتا نغمہ

تار کے ٹوٹنے کی اک جھنکار
سانحہ ہو کہ حادثہ ، نغمہ

زندگی درد ہے تو موت ہے زخم
درد کی لہر زخم کا نغمہ

اپنے ہمرائیوں کے ساتھ چلا
اپنی منزل سے آشنا نغمہ

ساز آوارگی اُٹھائے ہوئے
بہہ چلا سوئے ارتقا نغمہ

جستجو کے مدار و مرکز کیا
وادئ ہُو کا گمشدہ نغمہ

بچ کے کتنے بھنور سے ساحل تک
کس سلیقے سے آ لگا نغمہ

مختلف ساز ایک سازینہ
ایک نغمہ جدا جدا نغمہ

سن رہے ہیں ثوابت و سیّار
اپنی اپنی شکست کا نغمہ

نافۂ نفس میں کہیں چپ چاپ
چھپ کے بیٹھا ہے نارسا نغمہ

سچ یہی ہے کہ سن نہیں سکتے
ورنہ چپ بھی ہے گونجتا نغمہ

نقشِ گل میں کفِ صبا کا ہنر
شبنمی چاپ سا کِھلا نغمہ

پھول کِھل جائیں تو صبا خوشبو
شمع جل جائے تو ضیا نغمہ

راگ دیپک ہر اک بدن کی لپک
راگ ملہار روح کا نغمہ

شاخ پر بولتے ہوئے پنچھی
ہاتھ میں شوخئ حنا نغمہ

غنچۂ لب کا مخملیں پیکر
ساغرِ لب کا ذائقہ نغمہ

سنگ ریزوں کے ساز میں موجود
عکس نغمہ ہے آئنہ نغمہ

آس ہے ایک خوش نوا احساس
یاس بھی ایک غم زدہ نغمہ

جذب و احساس کے لرزتے تار
آرزو، خواب، حوصلہ نغمہ

دور بجتی ہو بانسری جیسے
دھیان کا رقصِ دائرہ نغمہ

میرے لفظوں میں ہے تری خوشبو
میرے اظہار میں ترا نغمہ

مسئلہ قرب و فاصلہ کا ہے
دونوں کے بیچ رابطہ نغمہ

ختم رستے میں ہو سفر کیسے
چل سنیں کوئی دوسرا نغمہ.


 

پیکر

روشنی میں حجاب تھا پیکر
بجھ گئے دیپ کُھل گیا پیکر

ایک اندھے کنویں سے نکلا تھا
بے صدا گونجتا ہوا پیکر

گوشۂ لب پہ ایک آہٹ سی
سارے دروازے کھولتا پیکر

اک نظامِ تسلسلِ تخلیق
ایک پیکر سے دوسرا پیکر

ہے رواں دم بدم قدم بہ قدم
گرد آلود قافلہ پیکر

نور و ظلمت کا دورِ ہجر و وصال
لمحہ لمحہ نیا نیا پیکر

ایک روشن چراغ کا فانوس
اور فانوس کی ضیا پیکر

نور سے اپنے ہے سراپا نور
لو سے اپنی بھڑک اُٹھا پیکر

اپنی پرچھائیں کھولتی ہوئی رات
دن اجالے لپیٹتا پیکر

خود ہی محصور اور خود ہی حصار
برق کچھ اور کچھ خلا پیکر

روشنی لا بدن مگر موجود
اور اندھیرا عدم نما پیکر

دور تک دیکھتی رہی آنکھیں
اور سانسوں میں گھل گیا پیکر

فکر،احساس،دھیان،خواب، خیال
پیکریت سے ماورا پیکر

میرا ہمزاد رہنما میرا
مجھ میں ہی میرا راستہ پیکر

دیکھنا بھی نظر کا دھوکا ہے
انتہائے نظر ، سما پیکر

ایک احساسِ لمسِ نا محسوس
بس گماں ہے کہ چھو لیا پیکر

دُود، آتش، کرن، صدا، رفتار
رنگ، خوشبو، صبا، فضا پیکر

سارا عالم شکستِ آئینہ
ایک پیکر ہزارہا پیکر

کس حنا بند جستجو میں مگن
سارا عالم ہے آبلہ پیکر

بے حجابی کو تھی تلاشِ حجاب
ہے اسی جرم کی سزا پیکر

ایک پردہ سا تا حد احساس
اور کچھ آگے ماورا پیکر

کوئی تو ہے یہیں کہیں مجھ میں
اپنے آثار دیکھتا پیکر

بند آئینہ کھول دیتا ہے
تیسری آنکھ تیسرا پیکر

محض احساس کے حوالوں سے
بُت نظر آتے ہیں خدا پیکر

نقشِ بے رنگ اجتماع رنگ
سادگی سات رنگ کا پیکر

برگِ گل میں چھپی ہوئی خوشبو
اور خوشبو کا دائرہ پیکر

درد، زخموں سے پھوٹتا نغمہ
چاکِ گُل ، زخم آشنا پیکر

اپنی ہی دھوپ میں جھلستا ہوا
سایہ سایہ پکارتا پیکر

چار ابعاد چار سُو دیکھوں
روشنی، عکس، آئنہ، پیکر

میں نے آواز کو بھی دیکھا ہے
نطق آثار ، بولتا پیکر

شعلۂ طور انعکاس جمال
عکس جلوہ سے جل گیا پیکر

کینوس کو ہے انتظار ابھی
نوک خامہ میں ہے چھپا پیکر

موت کی نیند اور اس کے بعد
بند آنکھوں میں خواب کا پیکر.


 

رقص

ہر طرف رقص ، والہانہ رقص
مدعا عافیت ، بہانہ رقص

نغمہ و رنگ و نور رقص میں ہیں
نقش ہائے نگار خانہ رقص

اپنے اندر سمیٹ کر صحرا
ایک ذرے کا کسمسانا رقص

دونوں جانب سکوت حیرت خیز
عکس آئینہ، درمیانہ رقص

کھیل سارا ہے رقص بسمل تک
پھر تحیّر کا بیکرانہ رقص

ایک دوجے کی تھام کر باہیں
رات اور دن کا آنا جانا رقص

زخم سے چور پائے فکر معاش
رقص کرتے ہیں آب و دانہ رقص

ایک دوجے کی تھام کر باہیں
رات اور دن کا آنا جانا رقص

زخم سے چور پائے فکر معاش
رقص کرتے ہیں آب و دانہ رقص

جامِ یک لمحۂ سرور ملے
تیز کر ساقئ زمانہ رقص

دائروں کا جمود تو ٹوٹے
چل کسی سمت ہو روانہ رقص

تھرتھری، بوند میں، جمال بدن
ہو بھنور میں تو وحشیانہ رقص

بسملوں کو قرار یک لمحہ
ناوکِ مرگ کا نشانہ رقص

رقص پروانہ کے تصور سے
شمع کی لو کا تھرتھرانا رقص

کچھ نہ ملنے کا غم ہی سب کچھ ہے
آگہی ورنہ جاہلانہ رقص

موج خوں کی الاپ ہے دھڑکن
کوچۂ دل میں آنا جانا رقص

چال خوشبو بدن کی، نغمہ تال
چال کو تال سے ملانا رقص

پیکریّت صدا کی ہے سرگم
اور سرگم کا جھوم جانا رقص

توڑ کر برگِ گل کی زنجیریں
خوشبوؤں کا نجات پانا رقص

چوم کر پھول کی قبائے چاک
ایک تتلی کا تھرتھرانا رقص

ایک دوجے کی تھام کر باہیں
رات اور دن کا آنا جانا رقص

زخم سے چور پائے فکر معاش
رقص کرتے ہیں آب و دانہ رقص

تاڑ کی تھاپ ، تال پیپل کی
بانسواری کا سرسرانا رقص

جھیل میں پورے چاند کا کھلنا
چاندنی کا بدن چرانا رقص

سیل آب و سراب صحرا میں
کچھ ادائیں نئی پرانا رقص

برق کی کوند میں جلال و جمال
بر سرِ شاخ آشیانہ رقص

تیز جھونکوں میں ڈوب جانے تک
کشتئ جاں کا ڈگمگانا رقص.


 

خوشبو

بدن کی آگ میں روشن تھی رات بھر خوشبو
بدن کو توڑ کے نکلی دمِ سحر خوشبو

میں صرف لفظ مرے لفظ میں اثر خوشبو
مرے سخن سے زیادہ ہے معتبر خوشبو

میں صرف چشمِ تماشہ مری نظر خوشبو
زماں مکاں تو مسافر ہیں راہبر خوشبو

کھلی فضاؤں میں اڑتے ہوئے پرندوں کو
کس اہتمام سے رکھتی ہے باندھ کر خوشبو

خود اپنے آپ میں سمٹی تو کائنات، کلی
حجاب گل سے نکل جائے تو نظر، خوشبو

قریب آ مری سانسوں کے ہاتھ تھام کے چل
تجھے بھی اپنے بکھرنے کا ہو گا ڈر خوشبو

وہ ادھ کھلے سے شگوفے کا لب بہ لب پیکر
شگفتگی کی حلاوت میں تر بہ تر خوشبو

یہ رشتہ لمس و بدن کا ہے اور نازک ہے
ہوا کے تیز ہوں جھونکے تو بے اثر خوشبو

اسے سنوار، سجا، ڈھال اپنے سانچے میں
بدن ہے تیرا محافظ تری سپر خوشبو

حجاب لمس میں مستور سرد آگ تری
جلا چکی ہے کئی تتلیوں کے پر، خوشبو

ملیں گے پھر سے مسلسل بہار کی رُت میں
دیارِ جاں میں پڑی برف کوچ کر خوشبو

تمام حسن کے جلوے سرابِ صحرا ہیں
تری ندی کی روانی ہے معتبر، خوشبو

کوئی تو ہو گا مری سرحدِ خیال کے پار
سجا رہی ہے خیالوں کے بال و پر خوشبو

نظر کے سامنے رنگین راستے روشن
حدِ نظر سے ہے آگے کی رہ گزر ، خوشبو

افق اچھال رہا تھا بہاؤ رنگوں کا
کھڑی ہوئی تھی سر شام بام پر خوشبو

ردائے سرخ پہننے لگا سیاہ گلاب
شکستِ رنگ ہوئی نغمۂ سحر خوشبو

مٹاتی رہتی ہیں موجیں مرے گھروندوں کو
سناتی رہتی ہے مجھ کو مری خبر خوشبو

بس اتنا جان لے اے سر پھری ہوائے سحر
ترے بغیر بھی رہتی ہے میرے گھر خوشبو

انا کا ایک تماشہ ہے تمکنت میری
مرے سرُور میں ہے شورشِ شرر خوشبو

جھلستے رنگ، سلگتے ہوئے نقوش و نگار
شدید دھوپ میں ہے ساےۂ شجر خوشبو

الجھ کے ٹوٹ نہ جائے یہ ڈور سانسوں کی
ذرا سی دیر کسی موڑ پر ٹھہر خوشبو

اسی یقیں پہ کہ بچھڑے ہوئے ملیں گے کبھی
گُلِ فراق سے آتی ہے عمر بھر خوشبو

ستاتی رہتی ہے اکثر یہ فکر آوارہ
بچھڑ کے مجھ سے بہت ہو گی در بدر خوشبو

مرے وجود کی پستی بلند ہے کتنی
قدم زمیں پہ مگر آسمان پر خوشبو.

 

Read 13224 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com