وادئ جاں میں جاں بہ لب اترے |
دنیا سب کی داسی ہے
|
کانپ رہی ہے جو تھر تھر
|
دیکھیں اب کرتے ہیں کس کو مرے ایّام پسند
|
مُجھے تیری کہ اپنی جُستجو ہے |
چلتے چلتے رستے اُکتا جاتے ہیں |
قدم بساط سے آگے بڑھا نہیں کرتے |
کمرے میں ، جُگنو، تارے، مہتاب سجے |
ذہن جب خاکِ تن اتارتا ہے |
پھر ہے صحراؤں میں بگولوں کا رقص |