غزلیں
یوسف دانشؔ
ہم پہ احساس کا غالب ہے اثر جانتے ہیں
ورنہ جینے کے کئی اور ہنر جانتے ہیں
ہم کو معلوم ہے دنیا کے مصائب کی روش
یہ فقط مفلس و نادار کا گھر جانتے ہیں
کیوں اندھیروں سے ڈراتے ہو ہمیں تم یارو
پردۂ شب سے ابھرتی ہے سحر جانتے ہیں
خود کو اوروں کی نگاہوں سے کبھی دیکھ ذرا
تو بھلا چیز ہے کیا اہلِ نظر جانتے ہیں
گمرہی سے ہی ملا ہے ہمیں منزل کا پتہ
ہم نہ رہبر نہ کوئی راہ گذر جانتے ہیں
موج دریا کو بنالینگے سہارا اپنا
ہم بھی طوفاں سے گذرنے کا ہنر جانتے ہیں
رہ نمائی کی ضرورت نہیں ہم کو دانشؔ
راہِ منزل کا ہر اک زیر و زبر جانتے ہیں
*****
مرکز میرے اُمید کا ایسا نکل گیا
بھوکا تھا میں وہ خون کا پیاسا نکل گیا
خنجر کی پیاس کی ذرا شدت تو دیکھئے
زخموں سے خون پھر مرے تازہ نکل گیا
رفتار میری دیکھ کے حیرت میں ہے جہاں
اس کو گماں ہے پاؤں سے کانٹا نکل گیا
کتنا ہے خوش نصیب وہ لوگوں کے درمیاں
اندھوں کے شہر میں بھی جو کانا نکل گیا
زخموں کو دیکھتے ہی تعجب ہوا مجھے
سمجھا تھا جس کو غیر وہ اپنا نکل گیا
میں نے کبھی تو ان کو کہا بے وفا نہیں
لیکن قلم سے شعر کچھ ایسا نکل گیا
چرچہ تھا جس کے نام کا دانشؔ ہر اک جگہ
سکہ وہی تو اصل میں کھوٹا نکل گیا
*****
9934116211 موبائل نمبر