شکریہ مہتاب
" عالمی پرواز " کے تمام شہپروں کو میری طرف سے بھی عید الالضحیٰ کی مبارکباد.........
آپ کے سائیٹ کے لئے دس بالکل تازہ غزلیں بھیج رہا ہوں ۔
اسلم بد ر
غزلیں
اسلم بدر
(مشرق وسطیٰ کے نام دو غزلیں)
شام کے سائے گھنیرے، وقت ہے ٹھہرا ہوا سا
فاختہ سہمی ہوئی سی، اژدہا بڑھتا ہوا سا
سوئے ہیں محراب و منبر ریشمی چادر لپیٹے
اک پرانا بوریہ مینار سے لپٹا ہوا سا
برف ہونٹوں سے پھسلتی بولیاں ٹھٹھری ہوئی سی
فکر کفنائی ہوئی، احساس دفنایا ہوا سا
صبح کے صفحے پہ آنکھیں کیا نئی تعبیر لکھیں
رات، پچھلی رات جیسی، خواب بھی دیکھا ہوا سا
متحد ہیں پنچ سب بستی کے لیکن ایک سر کش
اور کچی ڈور سے اک فیصلہ لٹکا ہوا سا
کالے سونے کی ابلتی موج مئے سے بزم جل تھل
خود فراموشی کا نشّہ چار سو چھایا ہوا سا
سرسراہٹ میں ہواؤں کی، کوئی آہٹ سی اسلمؔ
پیش خیمہ سر پھری آندھی کا ، سناٹا ہوا سا
******
زیتون کے پرانے شجر اب نہیں رہے
اجلے کبوتروں کے بھی گھر اب نہیں رہے
سر سے کفن لپیٹنے والوں کے پاس اب
چادر ہی صرف رہ گئی سر اب نہیں رہے
جن کے نقوش اب بھی چٹانوں پہ ثبت ہیں
وہ پاؤں مبتلائے سفر اب نہیں رہے
نم ہو گئی ہے ریت ، رم دشت اب کہاں
وہ سر بکف ، وہ خاک بسر اب نہیں رہے
بہتی ہوئی ہواؤں کے رُخ پر نظر نہ تھی
تب بھی اڑان بوجھ تھی ، پر اب نہیں رہے
شیشوں کے ہیں مکان میں خانہ بدوشیاں
خیمے میں سیپیوں کے گہر اب نہیں رہے
یوں راس آیا مغربی موسم میں بھیگنا
دامن کسی کی یاد میں تر اب نہیں رہے
*****