غزل
دلشاد نظمی
یہ الگ ہے کہ مرے ہاتھ نہ آئی دنیا
پر فقیری نے بہت سیر کرائی دنیا
جوڑ، تقسیم ، ضرب سے نہیں رکها مطلب
کهو دیا اس سے زیادہ جو کمائی دنیا
مجھ کو دیوانہ سمجهتے رہے دنیا والے
ساری دنیا سے الگ میں نے بنائی دنیا
اپنی دنیا سے نبهانا ہی بہت مشکل ہے
اس پہ اپنانے کو آئی ہے پرائی دنیا.
خواب میں میرے کوئی اور جہاں روشن تها
صبح دم میں نے وہی سامنے پائی دنیا
مجھ پہ اب جا کے کهلا وہ مری دنیا کا نہ تها
ہائے کس شخص کی آنکهوں سے چرائی دنیا
ہم تو پرکهوں کی بنائی ہوئی دنیا میں رہے
اور بچوں نے الگ اپنی بنائی دنیا
لے گئی مجھ کو ہوس دور بہت دور مگر
اپنی دنیا میں مجهے کھینچ کے لائی دنیا
وقت رہتے ہوئے دلشاد گنوا دی میں نے
اور پهر مڑ کے مرے پاس نہ آئی دنیا
دلشاد نظمی