سانحہ پشاور : نورؔ جمشید پوری
ان آنکھو ں سے یہ اشکوں کا سمندر کیوں بہا ڈالا
جو منظر دید کے قابل نہ تھا تو نے دکھا ڈالا
ارے ظالم بتا کیا دشمنی تھی تیری بچوں سے
ابھی تو ٹھیک سے کھولی نہ تھیں آنکھیں سلا ڈالا
تو ترسے گا شفاعت کو نبی کی روزِ محشر میں
شرم سے انکی امت کا جو تونے سر جھکا ڈالا
تو انساں ہو نہیں سکتا، یہ حیواں کر نہیں سکتا
عمل نے تیرے وحشی، پتھروں کو بھی رلا ڈالا
ازل سے بر بریت کی جو سنتے آئے تھے تونے
بس اک پل میں وہ ساری ہی مثا لو ں کو مٹا دالا
ابھی اک لمحہ پہلے تھا چمن گلزار پھولوں سے
کچل کر کیوں گلوں کو اس طرح صحرا بنا ڈا لا
ستوں ایمان کا اک لازمی انسانیت بھی ہے
ارے شیطان تو نے آج اسکو بھی ہلا ڈالا
بھلا کب دی تجھے اجداد نے ورثے میں سفاکی
تو آکر کس کے بہکاوے میں ،سب کچھ ہی بھلا ڈالا
خبر تجھ کہ نہیں ظالم تجھے اب زیر کرنے کو
دیا اک عزم کا ہر دل میں تونے ہی جلا ڈالا
تجھے تھا خوف کیا کل نور سے انکے جو یوں تونے
نہ جانے کتنے آنگن کے چراغوں کو بجھا ڈالا
نورؔ جمشید پوری