غزل
یامین چودھری
گِلے شکوے مِٹاکر دیکھتے ہیں
ذرا نزدیک آکر دیکھتے ہیں
گھُٹن ہونے لگی اب تو صحن میں
یہ دیواریں ہٹا کر دیکھتے ہیں
تلاشیں بے غرض دنیا کہیں پر
چلو بچپن میں جا کر دیکھتے ہیں
نئی نسلوں کے خوابوں کی زمین کو
سیاست سے بچا کر دیکھتے ہیں
وہ خونریزوں کے شیشے کے گھروں پر
کوئی پتّھر اُٹھا کر دیکھتے ہیں
کِسی معصوم کی معصومیت کو
درِندوں سے بچا کر دیکھتے ہیں
وفاؤں کا اُنہیں ہے پاس کِتنا
نظر اُن سے ملا کر دیکھتے ہیں
اُجاڑی ہے جو بستی نفرتوں نے
اُسے پِھر سے بسا کر دیکھتے ہیں
تمہارے گیت میں اشعار اپنے
ملا کر گنگنا کر دیکھتے ہیں