گوہر ؔ عزیز
شعبۂ اردو
کریم سٹی کالج
جمشید پور (انڈیا)
غزلیں
کٹ گئی رات تو اب دن کے اُجالے ہوں گے
پھر سفر ؟ پھر تو وہی پاؤں کے چھالے ہوں گے
گاؤں میں کچھ نہ سہی پیارسے جی تو لیں گے
شہر کے لوگ تو نہ پوچھنے والے ہوں گے
قتل و خوں، خوف دھماکوں کا، یہ دہشت گردی
کیا مرے بچّے ا سی وقت کے پالے ہوں گے
زندگی روٹھ کے تو ہم سے کہاں جائے گی
ہم سے بڑھ کر نہ کہیں چاہنے والے ہوں گے
ہم تو دستارِ شرف پا کے ہوئے خوش لیکن
جو بھی ہوں گے وہی جنّت کے نکالے ہوں گے
غم تجھے دے گا، تجھے غم کا بدل بھی دے گا
اس کے اندازِ محبّت تو نرالے ہوں گے
ہوئے کیسے بدنام چاہت سے پہلے
سیاست ہوئی ہے محبت سے پہلے
خدا جانے ان کی نظر کیا کرے گی
جلا دے نہ مجھ کو عنایت سے پہلے
یہ کیسی عدالت، یہ انصاف کیسا
مرا جرم ثابت سماعت سے پہلے
نہ دیکھا، نہ پوچھا، نہ چاہا تو پھر کیا
سبب تو بتاتے بھی نفرت سے پہلے
ادائے وفا دل کو دے دے خدایا
محبت ہے لازم عبادت سے پہلے
جو تھا وہ ہے اب بھی جو ہے وہ رہے گا
حقیقت ہے وہ ہر حقیقت سے پہلے
دعاء کیجیے میرے حق میں یہ گوہرؔ
شعور آئے مجھ میں ندامت سے پہلے