غزلیں مشتاق احزنؔ
انا ہی جس نے زمانے میں بیچ دی ہوگی
اسی کی گود میں دنیا کی ہر خوشی ہوگی
بچا کے رکھنا اجالوں کو اپنے دامن میں
تمھارے گھر میں کسی روز تیرگی ہوگی
کوئی تو شب کے سفر میں رہے گا ساتھ مرے
کسی کی شمعِ محبت تو جل رہی ہوگی
وہی تو ہوگا سبب انتشارِ ملّت کا
وہ جس نے ہاتھ سے رسّی ہی چھوڑ دی ہوگی
جسے زمانہ بڑا پارسا سمجھتا تھا
اسی کی ذات سے رغبت گناہ کی ہوگی
ہر ایک شخص فسردہ ہے اپنے غم سے یہاں
ہے کون جس کو میسّر ہر اک خوشی ہوگی
یہ سوچ کر میں جلاؤں گا خونِ دل احزنؔ
کسی کی بزمِ طرب میں تو روشنی ہوگی
میرے اندر کتنا پانی بہہ گیا
پیاس کا احساس لیکن رہ گیا
مر ہی جاتا زہرِ غم پی کر غریب
سخت جاں اتنا تھا سب کچھ سہ گیا
یہ پریشانی مقدّر بن گئی
سلسلہ پیدل سفر کا رہ گیا
زندگی بھر موت کا کرنا نہ خوف
مرتے مرتے مرنے والا کہہ گیا
جو تعلّق کا گھروندہ تھا بنا
ریت کا اک سیَل آیا بہہ گیا
بعد مدّت کے جو احزنؔ سے ملے
باندھ ٹوٹا، اشک سارا بہہ گیا
***
مشتاق احزنؔ
MUSHTAQUE AHZAN
P.W.SCHOOL AZAD NAGAR
MANGO, JAMSHEDPUR- 832110
MOB- 9334135021