غزلیں۔۔۔ یوسف دانش
زمیں کو آسماں سے با خبر ہونے نہیں دیتا
یہ شیطاں آدمی کو معتبر ہونے نہیں دیتا
ملاقاتوں سے طئے کرتے رہے ہم فاصلہ لیکن
یہ کیسی بے بسی وہ دل میں گھر ہونے نہیں دیتا
یہ نفرت جو دلوں میں غم کی بارش روز کرتی ہے
وہ صحرا ہے جو الفت کا شجر ہونے نہیں دیتا
وہ اب ناکامیوں سے خوف کھاتا ہے اسی خاطر
مری اچھائیوں کو مشتہر ہونے نہیں دیتا
تماشے بد نصیبی کے توقدرت ہی دکھاتی ہے
ہر اک موسم درختوں میں ثمر ہونے نہیں دیتا
بناتی ہے دعا اک رابطہ احساس کا دل سے
دعا میں حوصلہ میرا اثر ہونے نہیں دیتا
مقدر کا جو لکھا ہے بدلتا ہے کبھی دانشؔ
سکوں سے زندگی اپنی بسر ہونے نہیں دیتا
جستجو میں کس کی دیوانہ ہوں میں
ذات سے خود اپنی بیگانہ ہوں میں
منزلیں ہیں پیار کی باقی ابھی
ٹھوکریں کہتی ہیں انجانا ہوں میں
بار ہے لمحوں پہ یوں میرا وجود
اک ادھورا جیسے افسانہ ہوں میں
مجھ سے چاہے جس قدر برہم رہے
زندگی تیرا ہی پروانہ ہوں میں
اور دانشؔ کیا تعارف دیجئے
ہر نظر میں جانا پہچانا ہوں میں
****
یوسف دانش