غزل
صدام غنی
شجر کی نرم و نازک پتیّاں دل کو لبھاتی ہیں
ہوائیں اپنی دھن میں راگنی اب بھی سناتی ہیں
وہی خاموش منظر ہے وہی مہکی فضائیں ہیں
بس ایسے میں تری یادیں مجھے پاگل بناتی ہیں
کبھی وعدے محبت کے کبھی قسمیں وفاؤں کی
خیالوں میں وہ باتیں آج بھی دل کو دکھاتی ہیں
لب نازک پہ باتیں پیار کی آنکھوں میں اک جادو
شب غم میں تری الفت کی باتیں یاد آتی ہیں
کبھی چھیڑا کوئی نغمہ وفا کے ساز پہ ہم نے
تو ایسے میں مجھے تری صدائیں یاد آتی ہیں
یہ حسرت رہ گئی تھی دم نکلتا ان کی باہوں میں
وہی حسرت بہ شکل زخم دل ہم کو رلاتی ہیں
کبھی تو راس آئے مجھ کو میرے خواب کی دنیا
مگر خوابوں کا کیا خوابوں کی باتیں یاد آتی ہیں