غزل
نورؔ جمشیدپوری
دل سے دل کا جب تلک کہ رابطہ ہوتا نہیں
پیار کہتے ہیں جسے وہ حادثہ ہوتا نہیں
بارہا سوچا کہ بڑھ کر ہاتھ اسکا تھام لیں
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
بس رہا تھا سانس بن کر کل تلک جو روح میں
مدتوں اب اس کو مجھ سے واسطہ ہوتا نہیں
ایک دوجے کو بھلا کیسے بنیں گے ہم خیال
اس سے جب تک گفتگو کا سلسلہ ہوتا نہیں
ہم بڑھاتے دو قدم گر وہ بھی آتا دو قدم
آگیا ہے درمیاں جو فاصلہ ہوتا نہیں
دل کی ویرانی مرے چہرے پہ پڑھ پاتا اگر
اس طرح سے آج مجھ پر وہ خفا ہوتا نہیں
چاہتا ہے ہر گھڑی دل نور کی قربت مگر
پیار بھی تو اس سے لیکن برملا ہوتا نہیں