غزل
رضواں واسطیؔ
کچھ بوجھ سا دل پر ایسا پڑا ہم ٹوٹ گئے ہم ٹوٹ گئے
ہر رنگ بہاراں خاک ہوا ہم ٹوٹ گئے ہم ٹوٹ گئے
تیرے جھوٹے وعدوں کے آنچل ہم اُوڑھ کے سو تو جاتے تھے
اک خواب تھا سو وہ بھی نہ رہا ہم ٹوٹ گئے ہم ٹوٹ گئے
پانی تو ملا شفاف بہت لیکن پانی پھر بھی پانی ہے
اک عکس بنا اور مٹ بھی گیا ہم ٹوٹ گئے ہم ٹوٹ گئے
جو ہو گیا وہ تو ہونا تھا ، قسمت کے لکھے کو رونا کیا
بے وقت جو توڑا عہدِ وفا ہم ٹوٹ گئے ہم ٹوٹ گئے
دشمن سے تو لڑ بھی سکتے تھے اپنوں ہی سے لڑنا مشکل تھا
سنگین تھا شاید جُرم وفا ہم ٹوٹ گئے ہم ٹوٹ گئے
اللہ کی رحمت سے رضواں ہم تو نہ کبھی مایوس ہوئے
دُنیا نے جو ہم کو زخم دیا ہم ٹوٹ گئے ہم ٹوٹ گئے
رضواں واسطیؔ