غزل
مشتاق احزن : جمشید پور
انڈیا
جب کبھی میری امیدوں کا شجر جلتا ہے
میرے اندر کہیں احساس کا پر جلتا ہے
وہ تو رہتا ہے مرے پیکر اشعار میں گم
ہاں اسی واسطے سوچوں کا سفر جلتا ہے
وہ اندھیروں کو نگل جاتا ہے بن کر سورج
جہد کی آنچ پہ جو شام و سحر جلتا ہے
سرد لہروں سے بھڑک اٹھتے ہیں دل میں شعلے
کیا قیامت ہے کہ برسات میں گھر جلتا ہے
روزو شب ظلم کے سائے میں جہاں کٹتے ہیں
ایسی جگہوں پہ تو آہوں کا ثمر جلتا ہے
اپنی نفرت میں وہ رہتے ہیں شرابور احزن
اور میں ہو کہ محبت میں جگر جلتا ہے
مشتاق احزن جمشید پور
انڈیا
موبائل نمبر 9334195021