غزل
دلشاد نظمی
گھُٹی صدا کو کبھی مصلحت رہائی دے
میں چاہتا ہوں مری چیخ بھی سنائی دے
نظر ہٹے کبھی خود سے تو کچھ نظر آئے
خدا کرے تجھے کچھ اور بھی دکھائی دے
اسی کے ہاتھوں سے اترے گی نتھ سیاست کی
جو رونمائی سے پہلے ہی منھ دکھائی دے
لکھوں تو متن مرا سرخیوں سے بھر جائے
رگِ قلم کے لئے ایسی روشنائی دے
بھٹک گیا ہوں میں دنیا تلاش کرتے ہوئے
خدایا مجھ کو کبھی خود سے آشنائی دے
اس اجنبی سے کنکشن بحال کرنا ہے
اسے کہو وہ تعلق کی وائی فائی دے
اس عمر میں مجھے دلشاد چاہیئے عزت
میں چاہتا نہیں بیٹا مجھے کمائی دے
دلشاد نظمی