نظم۔۔۔
"چہرہ"
فوزیہ اختر ردا
آئینے کو بھی چہرہ عطا کیجئے
اور ہونٹوں پہ نغمہ سرا کیجئے
دشت در دشت کالی گھٹا
درد، آنسو، رہے مغفرت کی دعا کے لئے
گرد آفاق سے ڈھک گئے
حسرتوں کے دئے
عکس دیوار پر جھلملانے لگے
روح کی کارسازی یا وارفتگی
معتبر یوں بصیرت خدا کیجئے
آئینے کو بھی چہرہ عطا کیجئے
سانس چلتی رہے اپنی رفتار سے
پیرہن روح کی سی لیا ورد اقرار سے
شر سے مطلب نہیں
خیر ہی خیر ہے
خواب سے کچھ بھی شکوہ نہیں
اس کی تعبیر سے دل الجھتا نہیں
ہم نوا کا پتہ بھی نہیں
ناز و نخرہ نہیں کچھ نشہ بھی نہیں
حسن ایسا عطا کیجئے
آئینے کو بھی چہرہ عطا کیجئے
رنجشوں کی نوازش ہوئ
دوستوں کی نمائش ہوئی
میل دل کا ہو کافور اب
سرنگوں بھی ہو مغرور اب
کرچیاں بنکے اڑنے لگے
عشق کے وار سے
اچھے اچھے ہوئے
منقسم، منہدم
جس کے آگے زمانہ جھکے
قلب ایسا عطا کیجئے
آئینے کو بھی چہرہ عطا کیجیئے
فوزیہ اختر ردا