السبت, 15 حزيران/يونيو 2019 00:36

آخری ای میل : رضواں واسطیؔ

Rate this item
(0 votes)

 

 

 

آخری ای میل

رضواں واسطیؔ

 

میں بسم اللہ تو لکھوں، تمہارا نام کیا لکھّوں؟

یہ سوچوں آخری خط میں تمہیں پیغام کیا لکھّوں؟

کہا تھا میں نے تم کو کیوں کہ نازِ نازنیں ہو تم

ہو مہ رو، ماہِ طلعت،ماہِ انجم، مہ جبیں ہو تم

میں آئینہ تھا پھر بھی کہتا تھا حسیں ہو تم

مگر میں ہی غلط تھا جو سمجھتا تھا نہیں ہو تم

 

فقط اس بحث میں کیوں الجھیں عشق اور دوستی کیا ہے؟

ویلن ٹائن کسے کہتے ہیں؟ چودہ فروری کیا ہے؟

یہ اکیسویں صدی کیا ہے؟ یہ پندرہویں صدی کیا ہے؟

کہاں پہنچے ہوئے ہیں ہم؟زمانہ آخری کیا ہے؟

 

پرائیویٹ زندگی میں ایک دن دیدار کر بیٹھا

یہ سچ ہے میں تمہارے حسن کا اقرار کربیٹھا

ہے یہ بھی سچ کہ میں تم سے ذرا سا پیار کر بیٹھا

ذرا موقع دیا تم نے تو میں اظہار کر بیٹھا

 

تمہاری براؤن آنکھوں میں بھی تھوڑی سی گلابی تھی

وہ بھیگی فروری کی شام بھی ہلکی شرابی تھی

مگر یہ سچ نہیں کہ میری نیت میں خرابی تھی

مری حرکت مری اپنی نہیں تھی بس جوابی تھی

 

کبھی کھائی تھیں قسمیں دوستی تم نے نبھانے کی

کہ رسمیں ہی کہاں توڑی تھیں ہم نے کچھ زمانے کی

نہیں تھی بات کوئی بیتی باتیں بھول جانے کی

روابط ٹوٹنے کے بعد بھی ملنے ملانے کی

 

تمہارا فون کرنا مجھ کو بستر سے اٹھا لینا

کبھی وہ آرکائیو لائبریری میں بلا لینا

مرا پھر روٹھنا تم سے تمہارا پھر منا لینا

مگر اب یاد آتا ہے تمہارا مُنہ چرالینا

 

تمہاری کاپیوں میں میری تحریروں کا مل جانا

کتابوں میں تمہاری میری تصویروں کا مل جانا

نہ بھایا وقت کو کیوں پاک تقدیروں کا مل جانا

ہوا کیوں خواب پھر خوابوں کی تعبیروں کا مل جانا

 

فقط مانی زمانے کی نہ مانی آرزو دل کی

بہت لمبی نہیں تھی باقی یوں تو راہ منزل کی

ادھوری راہ سے پلٹی نہ پھر ڈگری ہی حاصل کی

مری کشتی ڈبودی جیسے کچھ لہروں نے ساحل کی

 

ہوس سمجھیں گے اس کو لوگ الفت کون سمجھے گا

میں سمجھوں اور تم سمجھوگے عصمت کون سمجھے گا

یہ رسوا دونوں کو کردیں گے تہمت کون سمجھے گا

یہ کیا شے ہے پلاٹونِک محبت، کون سمجھے گا

 

چمن میں پھول کھلتے ہیں تو مرجھانا بھی پڑتا ہے

جو اس دنیا میں آتا ہے اسے جانا بھی پڑتا ہے

سمجھ آئے نہ آئے خود کو سمجھا نا بھی پڑتا ہے

کھلونے دے کے اپنے دل کو بہلانا بھی پڑتا ہے

 

مرا دل ناپتا ہے عشق کی گہرائیاں اب بھی

تصور میں چلی آتی ہیں وہ پرچھائیاں اب بھی

ستاتی ہیں بہت مجھ کو مری تنہائیاں اب بھی

اٹھادیتی ہیں طوفاں ذہن میں شہنائیاں اب بھی

 

جو خط تم کو لکھا ہے ایک دن ای میل کردوں گا

اُسی دن سوچتا ہوں ختم سارا کھیل کردوں گا

٭٭٭٭٭

Read 1560 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com