غزل
مقصود انور مقصود
دوحہ ، قطر
ہتھیلی پہ تمہاری شوق سے میں اپنی جاں رکھ دوں
کہو تو کورے کاغذ پہ انگوٹھے کا نشاں رکھ دوں
اگر سچ بولنا ہے جرم تو پھر آپ بتلائیں
لبوں پہ قفل ڈالوں کاٹ کر اپنی زباں رکھ دوں
تجھے میری وفاداری اگر مشکوک لگتی ہے
زمانے میں گناکر میں بھی تیری خامیاں رکھ دوں
ابھی تک تو نے میرے لمس کا جادو نہیں دیکھا
وہ میرا ہو کے رہ جاتا ہے میں انگلی جہاں رکھ دوں
اگر کشتی ہواؤں کے اشارے پر ہی چلنی ہے
تو کیا ایسا کروں کہ کھول کر میں بادباں رکھ دوں
وفا کے نام پر عہد وفا کو توڑنے والا
بضد ہے نام اس کا میں جہاں میں مہرباں رکھ دوں
تمنا دل کی برآۓ تجھے مقصود مل جائے
زمیں کی گود میں لاکر کہو تو آسماں رکھ دوں
---------
مقصود انور مقصود
دوحہ ، قطر