الخميس, 28 شباط/فبراير 2013 21:16

مذہبِ اسلام میں وراثت کی اہمیت : افروز سلیمیؔ

Rate this item
(0 votes)

مذہبِ اسلام میں وراثت کی اہمیت 

افروز سلیمیؔ 
سب ایڈیٹر ’’ عالمی پرواز ‘
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته. 



مذہبِ اسلام ایک ایسا جامع اور مکمل مذہب ہے کہ اس میں تمام انسانی ضرورتوں کا حل موجود ہے ،ا سی وجہ سے انسانی تہذیب کا کمال مذہب اسلام کی پابندی سے وابستہ ہے ،اور انسانیت کے منازل عالیہ کا حصول اور بلند مراتب کی ارتقاء مذہب اسلام کے بغیر ممکن نہیں ،خداوند کریم نے اس مقدس مذہب کے ذریعہ کہ جس نے تنِ مردہ میں جان پھو نک دی اور انسانیت کا سلیقہ سکھایا،زند گی کے تمام تقاضوں کا حل پیش کیا ہے، اور ہر ہر جز ء حیات میں نہایت ہی جامع اصلاحی نظام اہل عالم کے روبرو رکھاہے،اسی طرح اس عالمِ فانی سے جب انسان رختِ سفر باندہ لیتا ہے تو اس کے مال متاع کے بارے میں ایک ایسانظام اور ایک ایسا قانون رب کریم نے بنایاہے کہ جس کی نظیر ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔
جب انسان دنیا وما فیہا کو چھوڑ کر درِآخرت میں منتقل ہو جاتاہے اور اس کے مال واسباب پر ان کی ملکیت باقی نہیں رہتی تو مذہب اسلام نے اس کی تقسیم ایسے صحیح اصولوں پر پیش کیا ہے کہ جس سے وراثت میں انسانی اختلافات اور باہمی کشمکش کو ہمیشہ کے لئے دنیا سے ختم کر دیا اور دنیا کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ یقیناًمذہب اسلام نے شریعت کے ہر ہر جز میں ایک نئی مثال پیش کیاہے ،میں بزور قلم یہ بات باور کرادینا مناسب سمجھتاہوں کہ زمانہ جاہلیت میں مر نے والے کا مال ومتاع پر طاقت ور انسان، وحشیانہ صفت انسان ،اور خود غرض شکم پرور انسان، قا بض ہو جاتے تھے اور وہ ببا نگِ دہل کہتے تھے..............کیف نعطی المال من لا یر کب فرساََولا یحمل سیفاََ ولا یقاتل عدواََ؟ اور مر نے والے کی یتیم و بے کس اولاد اوربے سہارا بیواؤں کو کچھ بھی میراث سے حصہ نہ ملتا تھا ان یتیم وبے کس کے حلق میں آواز نہ تھی ان کی آخری چیخ اس کے سینے میں دب کر رہ جاتی تھی اور یتیم و بے کس کی نگاہیں یہ پیغام دیتی تھی کہ میں مر چکاہو ں اور میر اجسم میری روح کی قبر بن چکاہے،گویا کہ انہیں مو ت سے قبل ہی موت کے منہ میں ڈال دیا جاتاتھا اور ان کی مظلومیت کی داستانیں سن کر ایک شریف انسان کے چہرے پر غم کے بادل چھاجاتے تھے ۔
غرض یہ کہ درندہ صفت انسان یتیموں کے حقوق پامال کر کے کل مالِ میراث ہضم کر لیتا اور اس ناپاک خصلت اور وحشیانہ
صفت پر شرمندگی کا کچھ اثر بھی نمایاں نہ ہو تا،قرآن کریم نے اس ناپاک عمل کی مذمت بلیغانہ اسلو ب سے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایاہے ،الذین یاکلون اموال الیتٰمیٰ ظلماََ انما یاکلون فی بطونہم ناراََ (القرآن )آخر ان ضعیف مظلوموں کی آہ کا دھواں عرش عظیم پر پہنچتاہے اور ان بدکاروں کی حرکتِ ناشائستہ دیکھ کر غیر تِ خداوندی کو جوش آتاہے اور فرماتاہے ،للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان والاقربون (القرآن )اس مجمل حکم سے لوگوں میں ایک کھلبلی سی مچ گئی کہ ذرادیکھیں تو صحیح عورتوں کے لئے کیا حصہ مقرر ہوتاہے،چونکہ ظاہر الفاظ سے یہ گمان تھا کہ عورتوں کو وراثت میں مردوں کے مانند حصہ داربنادیاجائے گا ،اس لئے بعض لوگوں کے اذہان میں تشویش کی لہر دوڈ رہی تھی مگر اس کے بعد نازل ہونے والی آیت کریمہ عورتوں کا ’’مردوں سے آدھاحصہ سن کر ‘‘ان کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھر گئیں اور ان کے دل خوشیوں سے بلیّوں اچھلنے لگے۔
یاد کیجئے ! حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو جو جلیل القدر صحابی تھے ،جنہوں نے احد کی لڑائی میں بارہ زخم کھا کر جام شہادت نوش فرمائی تھی ان کے مال پر ان کے بھائی نے حسب دستور قدیم قبضہ کر لیا،زوجہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ اوران کی بیٹیاں آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور روتی ہوئی اس مظلومانہ حرکت کی منظر کشی کرنے لگی ،ان کا منظر کشی کر نا رحمت الہی کے لئے ذریعہ بن گیا اور وراثت کا سب سے آخری اور قطعی فیصلہ نازل کردیاگیا .................یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین(القرآن)جس میں زوجہ وبیٹیوں کا حصہ اور تمام وارثوں کے لئے وضاحت کے ساتھ قطعی فیصلے مقررکر دیئے گئے،مذہب اسلام میں قاعدۂ میراث کے مطابق جو سب سے پہلی میراث تقسیم ہوئی وہ یہی جلیل القدر صحابی حضرت سعد بن ربیع کی میراث تھی ۔
مذہب اسلام میں وراثت کا وہ اعلیٰ مقام ہے کہ اس نو مولود بچے کو بھی وراثت کے مال سے مالا مال کر دیا جاتا ہے جو مادرِ رحم میں قد م رکھ چکا ہوتا ہے جو طلاق رجعی کی وجہ سے عدت میں ہو بشرطیکہ دورانِ عدت ہی ان کا شوہر انتقال کر گیاہو ۔مذکورہ آیت کے تحت میراث کے ان تمام احکام کی میعاد کو ختم کردیا جو چند ایام کے لئے جاری کئے گئے تھے مہاجر وانصار کی باہمی میراث کا حصہ ختم ،متنبی کو
ترکہ ملنے کا طریقہ معدوم اور وارثوں کے لئے تہائی مال سے زائد کی وصیت ناجائز قراردی گئی ،آقائے مدنی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے مو قع پر پرزور انداز میں ایک خطبہ دیا اور مجمع عام میں یہ اعلان فرمایا ،ان اللہ قد اعطیٰ کل ذی حق حقہ فلاوصیۃ لوارث ،خداوند کریم نے ہر حق والے کا حصہ مقرر فرمایا ہے ،لہذا وارث کے حق میں تہائی مال سے زائد کی وصیت کر نا جائز نہیں رہا ،مذہب اسلام نے وراثت کے سارے احکام اور کمزوروں کے تمام حقوق کو متعین فرمایاہے،اور یہ اصول ہمیشہ کے لئے واجب العمل اور قیامت تک کے لئے دستورِحیات ہیں۔


))()((


افروز سلیمیؔ 
سب ایڈیٹر ’’ عالمی پرواز ‘‘
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

Read 2853 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com