جموں وکشمیر میں اردو ناول کا ارتقاء
از: محمد سلمان بلرامپوری
۱۳۷۔ایس۔ایس نارتھ،
اے .ایم.یو،علی گڑھ
9897908383
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
جموں کشمیر میں اردو ناول کی روایت کوئی خاصی پرانی نہیں بلکہ ۱۹۴۷ ء کے بعد اور بھی مرکز توجہ رہی۔ جو کچھ ناول کا سر مایہ ہمیں دیکھنے کو ملتاہے وہ سب کے سب ۱۹۴۷ ء کے بعد ہی ملتے ہیں لیکن ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ یہاں کے ناول نگار جس فنی مہارت و ریاضت کا ثبوت بہم پہچاتے ہیں وہ امید افزا بھی ہے اور قابل ستائش بھی یہ ناول فنی، تکنیکی اور مو ضو عی اعتبار سے حد درجہ روایتی ہیں لیکن ناولوں کی اہمیت اس سے ہے کہ ان کا اصل دار و مدار اس بات پر ہے کہ مختلف سیاسی و سماجی معاشرتی اور تہذیبی رنگوں کو پیش کرتے ہیں بلاشبہ اردو کے مختلف و متعدد ادیبوں نے کشمیر کو اپنا موضوع خاص بنایا ہے ممتاز شعراء اور ادیبوں نے کشمیر کی برف پوش کہساروں، دوشیزہ سبزہ زاروں، فطرت کے دیگر شاداب اور سحر کار مناظر کو اپنی تخلیقات میں سمونے کی کوشش کی ہے، لیکن ان تخلیقات میں ہم صرف کشمیر کا جسم دیکھ سکتے ہیں یہاں کی روح بڑی حد تک ان کی نظروں سے اوجھل رہی ہے کشمیر کے فطری حسن کا جادو ان پر کچھ اس انداز سے سر چڑھ کر بولا کہ وہ یہاں کی سسکتی اور تڑپتی زندگی کا اندازہ نہیں کرسکے کشمیر میں لکھے گئے۔ ناول ’’کشمیر کی بیٹی‘‘، جمناداس اختر کا ناول’’ اوردیا بجھ گیا‘‘ یہی وہ ناول ہیں جوکہ کشمیر کی سچائی اور حقیقی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ کرشن چندر کے بیشتر ناول رومانیت کے زیر اثر لکھے گئے ان ناولوں میں زندگی صرف رومان اور اس سے وابسطہ شادابیوں، الجھنوں اور المیوں تک محدود ہیں اور پھر رومانی کیفیات اور واردات کو سطحی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ منصور احمد منصوؔ ر کشمیری ناولوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ متعدد ناول زندگی کی زہرناکی، انسانی رشتوں کے پیچ وخم، انسان کے ازلی وابدی دکھوں اور المیوں کو فنکارانہ بصیرت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ ناول افلاس اور استحصال کی مادی زندگی کے نقش ابھارتے ہیں۔ یہ آج کے انسان کے بے کل باطن کی پر چھائیوں کو مختلف انداز سے پیش کرتے ہیں‘‘۔
(شیرازہ۔جموں کشمیر میں اردو ادب کے پچاس سال: ص ۱۷۸)
جموں وکشمیر میں اردو ناول کے اولین نقوش کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے شروع میں سب سے پہلے ناول نگاری کی شروعات پنڈت سالک رام سالکؔ اور مولوی محمد الدین فوقؔ نے کی۔ سالکؔ نے ’’داستان جگت روپ‘‘ اور’’ تحفہ سالکؔ ‘‘ تصنیف کرکے نثر کے اس شعبے کی طرف توجہ کی۔ اگرچہ یہ تصانیف قطعی طور پر ناول کے زمرے میں شامل نہیں کی جاسکتیں۔ لیکن ان میں قصے کی مہک ہے‘‘۔
’’ داستان جگت روپ‘‘ ناول سے زیادہ ایک داستان ہے اس کی بہتر کوشش مولوی محمدالدین فوقؔ کے یہاں ملتی ہیں۔ فوقؔ کی تصانیف ایک سو کے لگ بھگ ہیں ان میں ان کے نثری کار نامے بھی شامل ہیں۔ ان میں بعض قصوں پر ناول نگاری کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔
فوقؔ اورسالک رام کے بعد جس کا نام سر فہرست ہے وہ ہیں موہن لال مروہؔ اور وشواناتھ ورماؔ ۔ جنھوں نے ناول نگاری کی روایت میں اضافہ کیا۔ ڈاکٹر ظہورالدین نے بتایا کہ موہن لال مروہ نے ’’داستان محبت‘‘ کے نام سے جو ناول لکھا وہ ۱۹۲۴ میں شائع ہوا کشمیر میں نندی لال بے غرض نے اس شعبے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا انہوں نے پنڈت رتن ناتھ سرشار سے تتبع میں تازیانۂ عبرت ‘‘ لکھا۔
پریم ناتھ پردیسی جوکہ کشمیر کے معروف افسانہ نگار ہیں انہوں نے ’’ پوتی‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھا۔ یہ ان افسانہ اور ناول نگاروں میں سے ہیں جن کا شمار آزادی سے پہلے کہ ناول نگاروں میں ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ان کے بہت سے ناول اور بہت سی تخلیقات ۱۹۴۷ء کے ہنگامے میں تلف ہوگئے۔
ناول نگاری کی طرف جموں وکشمیر میں ۱۹۴۷ء کے بعد ہی پیش رفت ہوئی۔ وہ فنکار جن کا تعلق نئی نسل سے تھا انہوں نے اچھے اور کامیاب ناول لکھے۔ نرسنگھ داس نرگسؔ نے’’پار بتی‘‘ اور’’نرملا‘‘ جیسے قابل ذکر ناول لکھے۔ نرسنگھ داس کے ہم عصروں میں کشمیری لال ذاکرؔ اور ٹھاکر پونچھیؔ نے یکے بعد دیگرے بہت سارے ناول لکھے۔ اوراس میدان میں انہوں نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔
کشمیر لال ذاکرؔ اپنے ناول نگاری کی شروعات ایک ناولٹ سے کرتے ہیں جس کا نام’’ سندور کی راکھ‘‘ ہے۔ انہوں نے متعدد ناول لکھے مثلاً ’’ جاتی ہوئی رت‘‘ اور’’دھرتی سدا سہاگن ‘‘ وغیرہ
اسی دوران مدن موہن شرما۔ برج کیتال اور ملک رام آنند نے بھی ناول لکھے۔ عبدالقادر سروری رقم طراز ہیں
’’ ملک رام آنند کا پہلا ناول’’ نئے خدا‘‘ ۱۹۵۸ ء میں مرتب ہوا اور اس کے بعد دوسرے ہی سال ایک اور ناول ’’ دہکتے پھول شبنمی آنکھیں‘‘ شائع ہوا۔ دو اور ناول ’’صلیب اور دیوتا‘‘ اور ’’اپنے وطن میں اجنبی‘‘ شائع ہوئے ‘‘۔
( کشمیر میں اردو تیسرا حصہ ۔صفحہ ۳۴۲)
برج کیتال نے ’’چراغ بجھنے سے پہلے‘‘ لکھ کر ناول نگاری میں اضافہ کیا۔ مدن موہن شرما کے کچھ اہم ناول جوکہ’’ ایک منزل چار راستے‘‘ اور’’ پیاسے کنارے‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ سبھی ناول کشمیری شہریوں کی زندگی، روز مرہ کے مسائل، زندگی کی ناہمواریوں، سماجی نابرابری، دولت کی نامساویانہ تقسیم اور سماج میں طبقاتی نظام کی بہترین عکاسی کرتے ہیں ۔
ٹھاکر پونچھیؔ نے بھی بہت سے ناول لکھے۔ پونچھیؔ کی ناول نگاری کے بارے میں منصور احمد منصورؔ لکھتے ہیں:
’’ ٹھا کر پونچھیؔ نے متعدد ناول لکھے وہ صحیح معنوں میں ناول کے فنکار ہیں انہیں ناول کے فن پر بھی عبور ہے اور زبان و بیان پر بھی دسترس حاصل ہے، وہ انسانی نفسیات کی باریکیوں کو بڑی چابکدستی سے پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں وہ بڑی خوبصورتی سے دیہاتی وشہری زندگی کے مرقع پیش کرتے ہیں اہم سماجی ونفسیاتی مسائل بھی ان کے ناولوں سے جھلک رہے ہیں ٹھاکر پونچھی کے ناولوں میں ’’وادیاں اور ویرانے‘‘،’’ یادوں کے کھنڈر‘‘،’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے‘‘،’’ زلف کے سر ہونے تک‘‘،’’ اداس تہائیاں‘‘،’’ چاندنی کے سائے‘‘ اور’’پیاسے بادل‘‘ قابل ذکر ہیں‘‘ (شیرازہ جموں وکشمیر میں اردوادب کے پچاس سال ۔صفحہ ۱۸۰)
تیج بہادر بھانؔ غلام رسول سنتو شؔ ، علی محمد لونؔ ، حا مدی کشمیری، نورشاہ، شبنم قیوم، عمر مجید، وحشی سعید ساحلؔ ، بھوشن لال بھوشنؔ ، رشید پروین اور فاروق رینز و ایسے ناول نگار ہیں جوکہ ۱۹۶۰ء کے بعد منظر عام پر آئے ۔بطور خاص یہ فنکار’’ کشمیر میں اردو ناول نگاری‘‘ میں بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان میں سے بیشتر ناول نگاروں نے ایک ہی دو ناول لکھے اور اس فن سے دست کش ہوگئے۔ ناول نگاری کو شوق پورا کرنے کا ذریعہ بنایا یہ لوگ اپنے اندر بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے جوکہ انہوں نے اپنے کار ناموں سے ثابت کیا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے یہ لوگ اردو ناول نگاری کا وہ حق ادا نہیں کیا جس کااردو ناول اصلی معنوں میں مستحق تھا۔
تیج بہادر بھانؔ نے صرف ایک ناول ’’ سیلاب اور قطرے ‘‘ کے عنوان سے لکھا ۔یہ ناو ل لکھ کرانھوں نے یہ بات تو ثابت کردیا تھا کہ وہ ایک اچھے ناول نگار ہیں ۔اور اپنے اندر ناول لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اگروہ چاہیں تواپنے قیمتی سرمائیوں کے ذریعہ ناول کے جہان میں اضافہ کردیں۔
’’سیلاب اور قطرے‘‘ پر عبدالقادر سروری رقم طراز ہیں،
’’یہ ناول ایک اچھا حقیقت پسندانہ بیانیہ، ایک نفسیاتی مطالعہ، کشمیر کی وضاحتاور نچلے طبقے کی زندگی کے واقعات کے بیٹھ بیٹھا معنی خیز نقشہ بن گیا ہے‘‘ ۔
(شیرازہ جموں وکشمیر میں اردوادب کے پچاس سال ۔صفحہ۱۸۸)
ڈاکٹر حامدی کا شمیری نے بھی اردو ناول لکھے’’پرچھائیوں کا شہر‘‘ ان کا ایک ناولٹ ہے اس کے علاوہ ’’بہاروں میں شعلے‘‘ ۱۹۵۶ ء’’ پگھلتے خواب‘‘ ۱۹۵۷ ء، ’’اجنبی راستے‘‘ ۱۹۵۸ ء اور ’’بلندیوں کے خواب ‘‘ ۱۹۶۱ء حامدی کاشمیری کے قابل ذکر ناول ہیں۔ منصور احمد منصور ان ناولوں پر لکھتے ہیں کہ :
’’۔۔۔ حامدی کاشمیری کے ان ناولوں کا کینوس بہت ہی محدود ہے ان ناولوں میں رومان کی سحر انگیزی ہے لیکن پس منظر میں کشمیری زندگی اور یہاں کا سیاسی و سماجی ماحول شدت کے ساتھ اپنے موجودگی کا احساس دلاتا ہے یہ ان ناولوں کا طرہ امتیاز ہے ۔’’بلندیوں کے خواب‘‘ میں حامدی کاشمیری نے کشمیر کی غیر فطری تقسم کو پیش کیا ہے‘‘
علی محمد لون نے’’ شاہد ہے تیری آرزو‘‘،غلام رسول سنتوش نے ’’سمندر پیاسہ ہے‘‘ لکھ کرکشمیر کی ناول نگاری میں اضافہ کیا ’’شاہد ہے تیری آرزو‘‘۔ عبدالقادر سروی کے مطابق یہ ان کے قیام دہلی کے زمانے کے مشاہدات اورتجربات کی پیداوار ہے۔ سنتوشؔ نے اپنے اس ناول میں بڑی بے رحمی کے ساتھ انسان کے باطن میں موجود ہوسناکی اورزہرناکی کو ابھارا ہے۔ ٹھاکر پونچھیؔ اس ناول کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’سمندر پیاسہ ہے‘‘ ایک دریا کی کہانی ہے جو پہلی بھٹکی چھوٹی چھوٹی سی ندیوں کو اپنے سینے سے لگائے ان کی منزل کی جانب بڑھنے کی جستجو میں ہوتا ہے۔۔۔ سنتوش ؔ انسانی نفسیات اور سیاسی وسماجی باریکیوں اور لغزشوں پر گہری نظر رکھتا ہے‘‘
( تعارف ’’سمندر پیاسہ ہے‘‘ صفحہ ۸۷)
کشمیر کے اور بھی ناول نگار ہیں مثلاً نورشاہ، بھوشن لعل بھوشنؔ ، عمر مجید شبنم قیوم، جان محمد آزاداور فاروق رینزووغیرہ نے اپنے ناولوں کے ذریعہ ناول کے جہاں میں اضافہ کیا۔
****