ڈاکٹر اسلم جمشید پوری
مظفر نگر فساد : ترقی یافتہ عہد میں کہاں جارہے ہیں ہم
اکیسویں صدی، آئی ٹی کی صدی____ہر طرف کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، مو بائل، اسمارٹ فون، ایس ٹی ڈی، آئی ایس ڈی، پین ڈرائیو، ڈی وی ڈی، وسی سی ڈی، بلو ٹوتھ، فیس بک، ٹوئیٹر، یو ٹوب اور اس طرح کی ہزا روں سوشل سائٹس کی بھر مار___، ما ؤس کلک کرتے ہی اسکرین بدل جانے کے عہد میں انسان کہاں جا رہا ہے۔ کیا یہی ترقی ہے؟ وسائل اور مادیت کے معاملے میں ہم نے کس قدر ترقی کر لی۔ ہندو ستان کا شمار دنیا کے چار پانچ طاقتور ملکوں میں ہو تا ہے۔ ہمارے پاس پانچ ہزار کلو میٹر تک مار کر نے وا لی میزائیلیں موجود ہیں،خود کار جنگی طیارے، ٹینک شکن تو پیں، زمین سے ہوا، پانی اور زمین پر دشمنوں کو مار گرا نے وا لی میزائیلوں سے مسلح ہندوستان۔ آئی ٹی میں امریکہ کو ٹکر دینے وا لا ملک ہندوستان____کتنی ترقی کی ہے ہم نے۔ لیکن بحیثیت انسان ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ماں بہن بیٹیوں کی عصمت دن رات تار تار ہو رہی ہے۔ انسان مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے خون کا پیا سا ہو گیا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟کیسی ترقی ہے یہ؟ امن کا پیغامبر ملک، کثرت میں وحدت کا ملک، عدم تشدد کی آواز دنیا میں بلند کر نے وا لا ملک،آس پاس ہی نہیں، پورے ایشیا بلکہ پو ری دنیا میں ہمیشہ امن و امان قائم کر نے کا حامی ملک ہندو ستان____ آج کیا ہو گیا ہے اس کو ؟کس کی نظر لگ گئی ہے؟مادی اعتبار سے ہم خلا،چاند اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں لیکن اخلا قی اعتبار سے دورِ جا ہلیت اور اس سے بھی آگے جا رہے ہیں۔ اپنے ہی پڑو سیوں کو، بھا ئیوں کی طرح رہنے وا لوں کو بے رحمی سے قتل کررہے ہیں، ایک دوسرے کی عبادت گا ہوں کو نہ صرف نجس کررہے ہیں بلکہ مسمار بھی کررہے ہیں؟ یہ کون سا عہد ہے۔کس زمانے میں داخل ہو چکے ہیں ہم؟ مظفر نگر جسے شہر محبت کہا جاتا ہے۔ مظفر نگر جوشہرِ آہن بھی ہے۔ مظفر نگر جو بزرگان دین کی آ ماجگاہ ہے۔ اسی مظفر نگر میں نفرتوں کی آگ پھیلی ہے،جس نے مظفر نگر کے شہر تو شہر قصبات اور گاؤں تک اپنے پیر پھیلا لیے ہیں۔ گاؤں جو آپسی میل جول، بھا ئی چارے اور اتحاد و اتفاق کے نمونے ہوا کرتے تھے۔گاؤں جہاں صدیوں سے ہندو۔ مسلم شیر و شکر کی طرح رہتے آرہے تھے۔ شہروں میں اکثر نفرتوں کی فصل لہلہا ئی، خون بھی اپنے رنگ پر شرمسار ہوا، لیکن گا ؤں دیہات پر اس کا کبھی کوئی اثر نہیں پڑا۔پھر اب ایسا کیا ہوا؟ لگتا ہے اس بار نفرت کے بیج بھی کچھ خاص قسم کے ہیں۔ مظفر نگر ہی کیا پو را مغربی اتر پردیش نفرت کے بارود کے ڈھیر پر ہے۔ مظفر نگر فساد تو اس بارود میں آگ لگانے کی شروعات ہے۔ بارود کے ڈھیر سے چنگاری پھو ٹی ہے۔ چنگاری شعلہ بھی بنی ہے۔ مظفر نگر سے شعلے، شاملی، باغپت، بڑوت، میرٹھ، دیوبند اور سہارنپور تک بھی پہنچے ہیں،لیکن جو کچھ بھی ہوا ہے، یہ سب ایک بڑی فلم کا ٹریلر ہے۔ پو را مغربی اتر پردیش اندر اندر دھ دھک رہا ہے۔ آ تش فشاں کی مانند اندر اندر درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ لاوا سرخ رقیق کی صورت اختیار کر چکا ہے کسی بھی وقت یہ لا وا پو رے مغربی اتر پردیش کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔
اسباب و علل :
مغربی اتر پردیش میں پھیلنے وا لی آگ کا صرف منظر نامہ ہی دہشت انگیز نہیں ہے بلکہ اس کا پس منظر اس سے بھی خطرنا ک ہے۔کوئی آگ لمحوں میں منظر عام پر نہیں آ تی ۔ اس کے اسباب و علل ہو تے ہیں۔مظفر نگر فساد کی زمین کافی پہلے سے تیار ہو رہی تھی۔
۱۔ 2011ء میں سماج وادی سرکار کی تشکیل کے بعد بہت سے منظر نامے یکا یک تبدیل ہو گئے۔ ایک افواہ یہ پھیلی کہ یہ سرکار مسلم حمایتی ہے۔اکثریتی فرقے نے اپنے آپ کو چست درست کر نا شروع کردیا۔یہ بات بھی عام ہوئی کہ اب غنڈوں کی خوب چلے گی اور ہوا بھی ایسا ہی۔ شر پسند عناصر، جرائم پیشہ افراد اور مافیا کا راج قائم ہو نا شروع ہو گیا۔ مسلم حمایتی ہو نے کی مہر نے ایک بڑے سیاسی گروپ کو اچھا خا صا مو قع فرا ہم کیا۔جب کہ حقیقت اس کے برخلاف تھی۔اتر پردیش میں متعدد فسادات ہو ئے ،قتل و غارت گری کی وارداتیں ہو ئیں، معصوم اور بے گناہوں کو جیلوں میں بند کیا گیا۔ دورانِ قید و بند اموات بھی ہو ئیں اور ان سب میں سر کار کا مسلم حمایتی رُخ کبھی سامنے نہیں آ یا۔جن شہروں میں فسادات ہو ئے آج تک وہاں گناہ گاروں کی شناخت نہیں ہو ئی۔
۲۔ ایو دھیا میں چوراسی پریکرما کے نام پرجو کچھ بھی ہوا وہ بظا ہر کچھ بھی رہا ہو لیکن اندرو نی طور پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی اور ایس پی کی نو را کشتی تھی۔ ایک فکس میچ تھا۔اس سے خوامخواہ بی جے پی کو ایو دھیا اور اس کے پاس ہی نہیں پو رے اتر پردیش میں آکسیجن مل گئی۔تقریباً ہر شہر میں مظا ہرے، دھرنے اور جلسے جلوس منعقد ہو ئے۔مغربی اتر پردیش میں چو را سی پریکرما رو کے جانے کے خلاف مظا ہرے کے بہانے بی جے پی نے اپنی طا قت کا مظاہرہ کیا۔
۳۔ گذشتہ کئی ماہ سے اتر پردیش میں بی جے پی حر کت میں آ گئی۔مو دی کو وزیر اعظم کا عہدیدار پیش کرنے کی کوشش کو بی جے پی ہر شہر میں زور و شور سے کیش کررہی ہے۔پھر نریندر مودی اپنی پو ری ٹیم کے سا تھ اتر پردیش خصوصاً مغربی اتر پردیش کو اپنا ٹارگیٹ بنا رہے ہیں۔مقامی رہنما ؤں نے بھی ہر چھوٹے بڑے ایشو پر بڑے بڑے مظا ہرے اور احتجاج کر کے ما حول کو گرمانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
۴۔ گذشتہ کئی ماہ سے میرٹھ اور گرد و نواح میں متعدد ایسے واقعات اور وارداتیں ہوئی ہیں جنہوں نے فرقہ پرستی کے لیے ماحول ہموار کر نے کا کام کیا:
149 میرٹھ میں ابتدا ئے رمضان میں شیو چوک چھیپی ٹینک پر ترا ویح کی نماز کو لے کر زبردست ٹکرا ؤ کے حالات بن گئے تھے۔ در اصل شیو چوک پر قدیم قبرستان ہے ۔قبرستان کے کنارے ایک مسجد ہے ۔اس مسجد میں مدتوں سے رمضان کی ابتدائی تین شبوں میں سہ رو زہ شبینہ ترا ویح کا اہتمام کیا جا تا ہے اور اس نماز میں میرٹھ کے بہت سے لوگ شر کت کرتے ہیں۔ بھیڑ اتنی ہو تی ہے کہ چھو ٹی سی مسجد ناکا فی پڑ جاتی ہے اور با ہر سڑک پر دور تک صفیں لگانی پڑ تی ہیں۔شیو چوک پر ایک مندر بنا ہوا ہے ۔ مندر میں نماز کے وقت بھجن بجانے کا سلسلہ شروع کر کے ماحول خراب کر نے کی کوشش ہو ئی جو رنگ لائی اور ہندو مسلم منافرت اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ لیکن انتظا میہ نے سخت پہرے میں نماز مکمل کرا ئی ۔سمجھو توں کے دور چلے ۔ہندو تنظیموں خصوصاً بی جے پی، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد نے اس کا خوب فا ئدہ اٹھایا اور ما حول کو گر مانے کی کوشش کی۔
149 رمضان ہی کے مہینے میں میرٹھ کے ایک گا ؤں ننگلا مل میں افطار کے وقت مندر میں گھنٹے بجانے کی زبردستی نے بھی فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کر لی تھی۔بی جے پی کے ایم ایل اے نے مو قع کا خوب فائدہ اٹھایا۔ زہر افشا نی کر کے ما حول میں نفرت پھیلا نے کا کام کیا۔
149 عید سے کچھ قبل رمضان کے آخری عشرے میں کانوڑ یاترا مسلم محلوں سے پو ری طرح طوفان بد تمیزی کے ساتھ بینڈ باجے سے نہ صرف گزرتی رہی بلکہ جگہ جگہ توڑ پھوڑ کے واقعات اور شور شرا بے سے رمضان کا مقدس ماحول متاثر ہوا۔ تقریباً ایک ہفتے تک گوشت کی دکا نیں اور ہوٹلوں کو بند کردیا گیا۔
149 عید کے بعد تبلیغی جما عت کے لوگوں کے ساتھ مار پیٹ کی واردات ہو ئی۔
۵۔ مظفر نگر میں کوال کا واقعہ۔ کوال میں دو حملہ آوروں نے شہنواز کو قتل کیا۔ قتل کے بعد بھاگتے وقت مقتول کے حامیوں نے دونوں حملہ آوروں سچن اور گورو کو بھی گھیر کر ماردیا۔ یہ جھگڑا در اصل لڑکی کو چھیڑنے کو لے کر تھا۔ اس کے بعد دو نوں فرقوں میں غصے کی آگ اندر اندر سلگنے لگی۔ ایسے میں دونوں فرقوں کے کئی بہت بڑے اجتماع پنچایت کی شکل میں منعقد ہو ئے۔ انتظا میہ نے ان کی اجا زت کیوں دی؟چشم دید گوا ہوں کا بیان ہے کہ کئی پنچا یتوں میں لا کھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ پنچا یتوں میں سیا سی رہنماؤں نے زہر افشا نی کا کام کیا۔
مظفر نگر کے الماس پور میں اکثریتی فرقے کے لوگوں نے اچانک گاؤں کے اقلیتی فرقے پر حملہ کیا۔ قتل و خون ہوتا رہا۔ خوف و دہشت میں لوگ گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
ننگلا میں بہو بیٹی سمّان بچاؤ مہا پنچایت منعقد ہوئی۔ یہ بات۷؍ ستمبر کی ہے۔ پو لس نے اس کی اجا زت کیوں دی۔ اس مہاپنچایت میں لاکھوں لوگ شریک ہو ئے۔ بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے پنچایت میں زہر اگلا اور لوگوں کو بھڑکانے کا کام کیا۔
فر قہ وارا نہ فسادات کا خونی کھیل کھیلا جاتا رہا اور انتظا میہ سو تی رہی۔دیہات سلگتا رہا ، بے قصور مسلمانوں کو تہہِ تیغ کیا جاتا رہا۔ لوگ اپنی اپنی جا ئیداد اور گھر بار چھوڑ کر جائے پناہ کے لیے بھاگ نکلے۔متعدد مسلمانوں نے مدرسوں میں پناہ لی۔ کچھ کو پولیس نے تھا نوں میں پناہ دی۔ بر بریت کے مظا ہرے ہو تے رہے۔ مظفر نگر کی یہ آ گ میرٹھ کے قصبات اور دیہات میں بھی پھیلنے لگی۔ شکر ہے کہ میڈیا کی خبروں نے انتظا میہ کو مجبور کردیا اور کئی دن کے بعد انتظا میہ حرکت میں آ ئی۔ بی جے پی کے چار ممبر اسمبلی پرFIRدرج ہوئی۔ لیکن مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ بی جے پی کے ایم ایل اے حکم سنگھ کے خلاف ایف آئی آر درج تھی اور وہ نیوز20 چینلپر انٹر ویو دے رہے تھے۔ جب ان سے پو چھا گیا کہ آپ کو تو پولیس تلاش رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ میں تو اپنے گھر میں موجود ہوں۔ تا دم تحریر کسی ایم ایل اے کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ یہ کیا ہے؟
ایک ضروری نکتہ :
تقریباً ایک ہفتے سے مظفر نگر شہر اور دیہات فرقہ وارانہ فساد میں سلگ رہے ہیں۔ ہر طرف خوف، ڈر، دہشت، قتل و غارت گری، آتش زنی کا ما حول ہے۔ روز نئے نئے واقعات رو نما ہو رہے ہیں۔ شاملی، موا نہ، سر دھنہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ آگ باغپت اور میرٹھ تک آنے لگی۔ اتنا سب ہو جانے کے با وجود مسلمانوں کے مسیحا کہلا نے وا لے کہاں ہیں؟مانا سماج وا دی مسلمانوں کی ہمدرد ہے۔ پھر کیا بات ہے کہ اب تک وزیر اعلیٰ کا دورہ نہیں ہوا۔ ایس پی کے بڑے بڑے مسلم وزیر اور رہنما کہاں ہیں؟ خود ملائم سنگھ کہاں بیٹھے ہیں؟ آگرہ میں پارٹی کی میٹنگ ہو رہی ہے۔ انسانیت جل رہی ہے۔ مسلمان کراہ رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ یا دیگر وزراء میں سے کوئی مظفر نگر میں ڈیرہ ڈال کر انتظا میہ پر نظر رکھتا تو کیا یہ سب ہو تا؟ بہت جلد معاملات پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ اب تک مہلوکین اور زخمیوں کے لیے ریاستی سرکار نے امداد کا اعلان بھی نہیں کیا۔ مرکزی سرکار نے وزیر اعظم فنڈ سے مہلوکین کو دو دو لاکھ رو پے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ کہیں ایسا نہ ہو مظفر نگر فساد کے نتائج2014ء کے سنہرے خواب دیکھنے وا لی ریا ستی سرکار کے ارمانوں پر پانی پھیر دیں ۔فرقہ وارانہ فساد کو سیا سی فائدے کے لیے استعمال کرنا، سب سے بڑا سیا سی گناہ ہے جو بھی اس کا مرتکب ہو گا اس کا حشر دیر سویر عبرتناک ہو گا۔ ایسے حالات میں انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم سب آپسی دشمنی بھلا کر، پھر سے ایک ہو جائیں تاکہ اقبال کا یہ مصرعہ ہم پر ناز کرے
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
Dr. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu
CCS University, Meerut
09456259850
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.