ادبی رسائل کا کردار ریسرچ کے میدان میں
ہاجرہ بانو
ادب کی اشاعت و فروغ کیلئے ادبی رسائل کا وجود بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہر دور کا ادب تخلیق میں اپنی نمایاں عکاسی پیش کرتا ہے اور تخلیقات تو اپنی اشاعت کے لئے سب سے پہلے ادبی رسائل ہی میں اپنا مقام بناتی ہیں اور اپنے عصری دور کی خامیوں اور خوبیوں کو پیش کرتی ہیں۔ تخلیق کار کے اظہار خیال کے لئے ادبی رسائل کا زینہ سماج تک راست طریقے تک اپنی بات پہنچانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ مغرب کی ترقی کا راز بھی وہاں کے ادبی رسائل و جرائد کی اشاعت سے ہی منسلک ہے۔ مشرق نے بھی طرز سخن کے اس طریقے کو اپنایا اور حتی المکان کامیابی حاصل ہوئی۔ ابتدا میں اخبارات شائع ہوئے۔ خبروں کے ساتھ ساتھ ادبی نگارشات بھی صفحات کی زینت بننے لگیں۔ خواص و عوام کی پسندیدگی کے پیش نظر رفتہ رفتہ یہ صفحات علوم و فنون کے ہر شعبے سے متعلق علیحدہ علیحدہ ادبی رسائل کی شکل اختیار کرنے لگے۔ دور حاضر میں ایک خاصی بڑی تعداد ادبی رسائل کی ہے جن میں ماہنامے، دوماہی، سہہ ماہی، ششماہی اور سالنامے شامل ہیں۔ یہ تمام رسائل کبھی حکومتی اور اوپر تو کبھی غیر امدادی طریقے سے عوام تک پہنچتے رہتے ہیں۔ چند رسائل جو کتابی سلسلے ہیں جنہیں کسی امداد یا اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ اشاعت کی قیود کے حصار سے آزاد ہوکر صرف اپنے شمارے کا اندراج کرکے شائع کیے جاتے ہیں۔ کئی ادبی رسائل بڑی پابندی سے وقت مقررہ پر شائع ہوتے ہیں۔ لیکن بعض رسائل چند وجوہات کی بناء پر اپنی باقاعدگی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ جن میں مالی اور تکنیکی مسائل سر فہرست ہوتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ادبی رسائل کی پابندی یا غیر پابندی کوئی خاص اہمیت نہںے رکھتی کیونکہ بہرحال ان میں شائع شدہ مواد کی اہمیت برقرار رہتی ہے۔ ہر زبان کے ادبی رسائل اپنے سماج کی عکاسی کے ساتھ ساتھ نئے رجحانات، نظریات اور نئے تخلیق کاروں کو پیش کرتے ہیں اس طرح خود بھی نظام کائنات کے مسلسل گردشی سلسلے کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ادبی رسائل کے کئی مسائل ہیں۔ کمپیوٹر کی ترقی کی بدولت طباعت کی ترقی کے باوجود زیادہ تر اردو ادبی رسائل اپنے قدیم طریقہ اشاعت پر آج بھی قائم ہیں۔ مالی مشکلات کے سبب مدیران اپنے رسائل کو زیادہ دیدہ زیب اور پرکشش نہیں بناپاتے۔ جس کی وجہ سے وہ قارئین کی بڑی تعداد کو متاثر نہیں کرپاتے اور اسی سبب سے انہیں حکومتی یا نجی اشتہارات کی بدولت مالی تعاون حاصل کرنا دشوار کن ہوتا ہے۔ نتیجتاً قوی ہیکل مالی مسئلہ جوں کا توں کھڑا رہتا ہے۔ اکثر اوقات ادبی رسائل بہترین تخلیق کاروں کو معاوضہ سے محروم کرکے عمدہ تحریروں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ آج کل زیادہ تر رسائل اپنی باقاعدہ اشاعت کے لئے معیاری و غیر معیاری تخلیق کاروں سے منسلک گوشے یا خصوصی نمبر شائع کررہے ہںے۔ جس کی بدولت وہ ایک اطمینان بخش رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ معیاری گوشوں اور خصوصی نمبر کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن غیر معیاری تخلیقات کے گوشے جب عوام تک پہنچتے ہیں تو طلباء یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ یہ معیاری ہے یا غیر معیاری۔ پھر کئی ریسرچ اسکالرز انہیں اپنا موضوع بناکر ایک بے مقصد کی ناکام تحقیق کی بناء پر ڈگری پانے کے دعویدار بن بیٹھتے ہیں۔ موجودہ ریسرچ اسکالرز کی تن آسانی اور رسائل کے ذاتی و کاروباری مفاد کی بناء پر آنے والی نسلیں ایک غیر معیاری ادب سے روشناس ہوکر اسی کو اپنا سنگ میل سمجھ رہی ہیں اور دانستہ یا غیر دانستہ یہ فعل اردو ادب کے لئے کافی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ سنگین مسئلہ دانشوران، مدیران اور جامعات کے سربراہان کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ کیونکہ اسطرح سے اردو ادب کے خلاء کو کبھی معیاری درجے سے پر نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری طرف معیاری اور اعلیٰ پایہ کے شعراء و ادباء ایسے نازک ترین حالات میں خود کو حاشئے پر رکھ کر محفوظ کئے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی یہ احتیاط اردو ادب کے سرمایہ مںے فرسودہ و خستہ تخلیقات اور مقالات کے اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ اکثرتحقیقی مقالات تضیع اوقات کا سبب محسوس ہوتے ہیں۔ یہ خیال بیک وقت کئی دانشوران کا ہے لیکن کمال حیرت ہے کہ باوجود اس کے سیکڑوں مقالات ردی مواد سے بھرے پڑے ہیں۔ زیادہ تر ریسرچ اسکالرز کم محنت میں زیادہ فائدہ تلاش کرنے کی کوشش میں غیر معیاری اور کمزور ادب کو دلکش پرنٹ کے ساتھ پیش کرکے ہر دو تین سال بعد اردو ادب کے تناور سرسبز درخت کے تنے پر کلہاڑی سے وار پر وار کئے جارہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں کہ یہ درخت ایک دن آخرکار خود کو زمین سے جدا کرلے گا۔ سیکڑوں تحقیقی مقالات ایسے ہیں جن مںے کوئی نہیں بتاسکتا کہ نیا کیا ہے؟ ان کی تحقیق کا مرکزو محور کیا ہے؟ اور موضوع سے غیر منسلک مواد سے کیوں صفحات کے صفحات ضائع کئے جارہے ہیں۔ زیادہ تر ایسے تحقیقی مقالات میں حوالۂ کتب اور مصنفین کے گزشتہ یادوں کے اقتباسات، قدیم تصاویر کے نمونہ اور خود نمائی سے پیش کردہ چند تصاویر کے علاوہ کچھ بھی نیا نہیں ہوتا۔ دراصل یہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے تغیرات ہیں اور ایسے نظریاتی اصطلاحات پیش کرتے ہیں جن میں نئی تحقیق کا فقدان ہوتا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ترقی و ذہانت کی صدی ہے جو کمپیوٹر کے سینگوں پر ٹکی ہے تو اس ذہین صدی سے یہ توقع کی جانی چاہئے کہ موجود خدمات اردو زبان کی ترقی میں ایک بہترین کردار ادا کرے گی۔ لیکن اس کے برعکس یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ریسرچ اسکالرز کی تعلیم کا مقصد جس قدر علمیت کے شعبہ سے منسلک ہونا چاہئے اس سے ہزار گنا زیادہ حصول ذریعہ معاش ہے۔ لیکن یہ اسکالرز اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ ان کے پیش کردہ مردہ صفحات ادب کے مجسموں میں نئی روح نہیں پھونک سکتے۔ وہ زیادہ تر صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا مقالہ کتنے صفحات کا احاطہ کرکے انہیں جلد از جلد ڈگری ہولڈر بناسکتا ہے۔
نجانے کیوں طلباء اور معلم ایسے بے مقصد کے تحقیقی مقالے کو مستند بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ سونے پر سہاگہ کئی ریسرچ اسکالرز مسودہ کی خرید و فروخت بھی دھڑلے سے کرتے ہیں۔ کئی خود ساختہ مصنف خود اپنی فرسودہ تصانیف کو نقرئی طشت میں برائے تحقیق پیش کرتے ہیں۔ اکثر ریسرچ اسکالرز ایسے ہی مواقع تلاشتے ہیں۔ یہ صرف خود نمائی، مفاد پرستی اور ادب کی جڑوں کی زہریلی آبیاری کے سوا کچھ نہیں۔ آج کی عنقا ہورہی علمیت مستقبل میں ادب کا معیار پست سے پست تر کردے گی۔
دیکھا جائے تو ریسرچ کا اصل مفہوم ہی صداقت کی تلاش بسیار اور حق کی کھوج ہے۔ یہ کام آغاز میں تو نہایت آسانی سے رنگ برنگی گلوں سے بھری وادیوں میں سیر و تفریح کے مصداق لگتا ہے لیکن رفتہ رفتہ ہی مخملی راہیں پرخار بننے لگتی ہیں اور زندگی کے لمحات طویل و دشوار کن محسوس ہونے لگتے ہیں۔ عمر کے لئے سال صرف کرنے کے بعد قدرے مشکل اس گوہر نایاب کو حاصل کیا جاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ہر جگہ صورتحال یکساں ہے۔ ان خاردار غیر معیاری مقالات کی جھاڑیوں میں پوشیدہ معیاری مقالات کے گلاب، گل داؤدی، گل سوسن کو تلاش کرکے ادب کی نئی مہک سے تزئین کاری کی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ مقدس فریضہ صرف اور صرف آج کے ادبی رسائل ہی انجام دے سکتے ہیں۔
اردو میں ریسرچ کے عنوانات عموماً تحقیقی نہیں بلکہ تنقیدی یا تجزیاتی ہوتے ہیں۔ اگر طالب علم میں ریسرچ کی صعوبتیں سہنے کی صبر آزما تلاش اور علمیت و اہلیت کا فقدان ہو تو وہ موضوع سے پوری طرح انصاف نہیں کرپاتے۔ متعین مدت میں مخصوص گائیڈس کی نگرانی میں موضوع کے تقاضوں کو پورا کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ گائیڈ اور ریسرچ اسکالرز کی ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو یہ کام مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ کئی بار یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بیشتر گائیڈ اپنی تحقیقی اور ترسیلی اہمیت کے باوجود ریسرچ اسکالرز میں ادب فہمی کا ذوق بیدار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ جس کی بناء پر وہ زچ ہوکر جلد از جلد اس مقالہ کی فائل کو کلوز کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اور نتیجہ میں ایک کمزور تحقیقی مقالہ منظر عام پر آجاتا ہے۔
محقق پروفیسر رفیع الدین ہاشمی نے 2009 میں تقریباً 81 یونیورسٹیز کی سندی تحقیقی مقالات کی فہرست پیش کی اور تقریباً 15 صفحات پر مشتمل مرتب کا تحریر کردہ ’’مقدمہ‘‘ ہے جس میں موصوف نے جدید تحقیق کا جائزہ لیا ہے۔ صفحہ نمبر 27 پر زندہ شخصیات پر ریسرچ کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ مقدمہ کے آخر میں انہوں نے لکھا کہ اس طرح کی تحقیق پر اگر ایک بے لاگ چھلنی نہ لگائی جائے گی تو ریسرچ کا معیار مزید گرتا جائے گا۔ اور اردو والوں کی جگ ہنسائی کا باعث ہوگا۔ بالکل اسی طرح اس سنگین مسئلہ سے متعلق ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق موجودہ تحقیقی معیار کی خرابی کے ذمہ دار وہ استاد ہیں جو جامعات میں ان مقالات کے نگراں ہیں اور خود فن تحقیق و تدوین کے اصول و مسائل سے نابلد ہیں۔ تحقیق بھی ایک علم ہے۔ جس طرح دیگر علوم کی مبادیات متعین ہوتی ہیں۔ اسی طرح تحقیق کے بھی اصول مرتب ہیں۔ جب تک ان اصول و ضوابط سے آگہی نہ ہو تو اس علم پر عبور حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اس لئے اگر نگراں کار اپنے ریسرچ اسکالرز کو پہلے اس کی تعلیم دے اور انہیں تمام اصول اچھی طرح ذہن نشین کرواکر اسے وسیع مطالعہ کے ساتھ موضوع کی تاریخ و پس منظر کا کامل مطالعہ کا موقع فراہم کرے۔ ساتھ ہی اسکالر میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرکے اپنی ذاتی رائے کو شامل نہ کرتے ہوئے ادب پارہ سے متعلق لسانی، ادبی اور احاطے کے سیاق و سباق کی روشنی میں اپنی تحریر کو صفحہ قرطاس کے سپرد کرکے دوسرے محققین کے نظریات، دلائل و نظریات کو ایک نئے نقطہ نظر کے ساتھ اس کی تائید و تردید کرے۔ حواشی اور تعلیقات کے اندراج کو اہمیت دے کر استفادہ کئے گئے کتب و رسائل کا برملا اعتراف کرکے نرگسیت سے پرہیز اور اپنی خامیوں کا اعتراف کرے۔ استاد مقالے کے ہر صفحے ہر سطر پر طالب علم کی رہنمائی کرے تو کچھ مشکل نہیں کہ اچھے مقالے ادب کے خزانے کی زینت بنیں۔
بادشاہ اکبر کے درباری شاعر نظیر نیشاپوری نے ایک بار بادشاہ سے کہا کہ میں نے آج تک لاکھ روپے کا ڈھیر نہیں دیکھا۔ بادشاہ نے فوراً شاہی خزانے سے لاکھ روپے نکلواکر ڈھیر لگادیا۔ جب نظیر نیشاپوری لاکھ روپے کا ڈھیر دیکھ چکے تو بادشاہ نے وہ روپے خزانے میں واپس بھجوادئیے اور نظیری دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ آج کے ریسرچ اسکالرز کی حالت نظیری اور گائیڈ کی حالت بادشاہ اکبر کی طرح ہی ہے۔ موضوع کا انتخاب کرنے کے بعد گائیڈ انہیں کتابوں اور رسائل سے بھری الماریاں تو دکھادیتے ہیں لیکن یہ وضاحت کرنے سے قاصر رہتے ہیں کہ صرف ان کتب و رسائل کا دیدار کرنا ہے کہ آیا ان ہٹ کر کس طرح نئی تحقیق پیش کرنی ہے۔ نہ وہ جدید موضوع مہیا کرانے میں محنت دکھاتے ہیں اور نہ ہی اپنے ریسرچ اسکالرز سے کسی نئی جہت و فکر و ویژن کی امید رکھتے ہیں۔ نہ ہی وہ مقاصد موضوع کی نئی وسعت اور دائرہ عمل کی وضاحت کرکے ریسرچ کا تقاضا پورا کروانے کی سعی کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ انتہائی مصروف ہوتے ہیں۔ اپنے طالب علم کے علاوہ ان کے پاس ہر کام کے لئے وقت ہوتا ہے۔ نتیجتاً طلباء اپنے گائیڈس کو بڑی رقم دے کر، دعوتیں کرکے یا ان کے ذاتی فرائض کی تکمیل کرکے ڈگریاں حاصل کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں جو بھی تحقیق کی جاتی ہے وہ نامکمل ہوتی ہے۔
ریسرچ کی قوس قزح میں تنقیدی تاریخ، امور، واقعات و حالات کے پس منظر، مختلف شخصیات، صنف شاعری، نثری اصناف غرض تمام متعلقہ امور کی اچھی طرح چھان بین کرکے مقصد موضوع کی نئی تحقیق کرنا ہے۔ ساتھ ہی قدیم و فرسودہ تصورات کے کھوکھلے مجسم پر آہن کاری کرنا ہے۔ حقائق و معروضیت کو دیدہ دلیری سے پیش کرکے دروغ بیانی اور باطل کا پردہ فاش کرنا ہے۔ جدید فکر و نظر کے تمام پہلوؤں کو سامنے لاکر صداقت کی روشنی بکھیرنا ہے۔ کسی نسخے یا کتاب کو گمنامی سے نکال کر سرسری تحقیق کردینا ہی اصل مقصد نہیں ہوتا بلکہ قطعیت کے ساتھ اپنی بات کہہ کر مصنف کے اندر پوشیدہ فنکار اور تحریری زاوئیے تک رسائی کرنا ریسرچ اسکالرز کا اصل فریضہ ہوتا ہے
کرہ ارض پر آنکھیں کھولنے کے ساتھ وقت کے پہئے پر گردش کرتے کرتے کئی چیزوں کا علم رکھنے والے انسانی ذہن پر لاعلمی کے دبیز پردے پر اپنی تہہ جمانے لگتے ہیں اور صرف معلم کی عظیم ہستی اور بہترین ادبی رسائل ہی ان لا علمی کے پردوں کو چاک کرنے کا عمل انجام دے سکتی ہے تاکہ وہ مخفی علم و خوبیوں کو ظاہر کرسکے جو دوسروں کے نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ آج جہاں سنجیدہ ادبی حلقہ اپنے دائرے کو تنگ ہوتا محسوس کررہا ہے وہیں ہندوستانی معاشرہ کے سامنے ادبی روایات کے کئے مسائل درپیش ہیں سیکڑوں ادبی رسائل کی موت کے بعد بھی امید باقی ہے کہ رسائل کی موجودگی بہرحال ہمیشہ قائم رہے گی کیونکہ یہ ادبی رسال رفاقت کا ایک بہترین اور مؤثر احساس پیدا کرتے ہیں جو کوئی دوسرا ذریعہ نہیں کرتا۔ کئی ایک تو یہ سوچتے ہیں کہ نئی تحقیق سامنے لانے سے کوئی ادبی تنازعہ یا اختلاف کھڑا نہ ہوجائے۔ اختلافات نہ ہوں گے تو ترقی کے مراحل کیسے طئے ہوں گے۔ ہمیں وقت اور روایات کے اس جمود سے احتراز کرنا چاہئے۔ جب بیک وقت تمام لوگوں کی سوچ منجمد ہوکر ایک نقطے پر مرکوز ہوجائے۔ جب تک اختلافی ادب پیش نہیں ہوگا تو آنے والی نسلوں کے لئے نئی راہیں کیسے کھلیں گی۔ یہ تو ایک اٹل حقیقت ہے کہ تحقیق یا علم میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ ارادوں کی آہنی طاقت ہمت و حوصلہ کو مزید جلا بخشتی ہے۔ آخر ایک ہزار میل کا سفر پہلا ایک قدم اٹھانے سے ہی شروع ہوتا ہے۔
***
Mob: 9860733049
E-mail: عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.