اُردو کا المیہ
نغمہ ناز مکتومیؔ
ایڈیٹر ’’ عالمی پرواز ‘‘
ایڈیٹر ’’ اُردو آپریشن ‘‘
عصرِحاضر کا سب سے بڑا المیہ اُردو کے ساتھ بے اعتنائی ، بے توجہی اور بے التفاتی ہے۔جو محتاجِ بیان نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ناقابلِ تلافی جُرم ہے ارباب اُردوسے لے کر اُردو کے مفکّر ، دانش ور ، حکمراں تمام لوگوں سے اس سمت بے توجہی ہوتی رہی ہے۔ اس پر بھی بس نہیں ہے بلکہ ہمارے جگر گوش نئی تہذیب کے دلدادہ HYPOCRIT نوجوان انگریزی پڑھ کر اُردو اور اُردو والوں کو کمتر نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دراصل وہ خود ہی احساس کمتری کے شکار ہیں اور وہ اپنی مادری زُبان کے ساتھ غدّاری کر رہے ہیں۔ کاش اُن کو انگریزی زُبان پر بھی عبور حاصل ہوتا۔کسی زُبان کو سیکھنا جُرم نہیں ہے بلکہ یہ ایک اچھی علامت ہے ، مگر اپنی تہذیب اور تمدن کو کمتر سمجھنا اور نقالی کرنا یہ ایک بڑی حماقت ہے،خصوصی ہم جس ملک میں رہتے ہیں۔ ہندوستان میں اُردو دم توڑ رہی ہے مظلوم ، مجبور اور بے بس نظر آتی ہے۔آج تو ہم خود ہی اس کی قبر کھودرہے ہیں۔ اب تو یہ ہمارے گھروں سے بھی رخصت ہو رہی ہے جس کے ذمّے دار ہم سب اردو والے ہیں جو اس عہد کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ جن کی زُبان ٹھہری، جس نے گنگا جمنی تہذیب کاانمٹ نقوش قائم کیا اورجس کا نعرہ انقلاب تھا۔آج اُسی کے حلق میں اُس کی آواز پھنس کر رہ گئی ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ ہم اُس کے حلقوم پر آخری چھُری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ یہ اپنے حقیقی وارثوں کے یہاں زندہ ہو رہی ہے۔آج مدرسوں، جماعتوں اور خانقاہوں میں اس کی نشودنما ہو رہی ہے۔ دراصل اس کے آخری وارث مدرسے والے ہی ہیں اور اب یہ وہیں لوٹ رہی ہے۔ بقول کلیم عاجز صاحب کے......
ہم کو اب یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں۔ فلم والے اور کچھ ادیبوں نے اس کی آبرو بچائی تھی اُسی زمانے میں ایک سیلاب آیا تھا جس کی وجہ ہے اس کے جانشیں کہیں کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ اِللہ ماشا اللہ ورنہ آج اُردو کو سب سے زیادہ نقصان اُردو کی روٹی کھانے والوں سے ہی ہے۔ یہ اُردو کا سب سے بڑا المیہ ہے جو ناقابلِ بیان ہے۔ ہماری گذارش قوم کے بہی خاہوں اور اسکالروں سے ہے کہ اس وقت اُردو کی بقا ء کے لئے جدو جہد نہیں کریں گے تو ایسا نہ ہو کہ اُردو والوں کی زُبان تراش لی جائے اور آنے والی نسلیں گونگی اور بہری ہو جائیں۔
مخلوط خلط ملط تعلیم نے ہم کو یہاں تک پہنچا دیا ہے یہ ایک بڑی سازش ہے کہ تاریخ میں ہماری شناخت بھی نہ قائم رہ سکی اور ہماری تہذیب اور تمدن کلچر اور زُبان سے ہم کوسوں دور ہو گئے اور وقت نے اُردو کے ساتھ ایک عظیم سانحہ کی طرف ہم سب کو ڈھکیل دیا ہے کہ اب ہم رو ہی سکتے ہیں۔
تم سے جُدا ہوئے تو رویا کریں گے ہم
ایک دوسرے کی یاد میں نہ سویا کریں گے ہم
قتیل شفائی
اُردو صرف زُبان ہی نہیں ہے بلکہ ایک مکمل تہذیب ہے جس کے نطفے سے آئندہ کئی زُبانیں پیدا ہوں گی۔ بقول رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری کے۔
فورٹ ویلیم کالج اور آکسفوڈ میں یہ آج بھی پڑھائی جا رہی ہے، اور اُردو کے وسیع امکانات ہیں لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اُردو کے ساتھ ہم خود نا انصافی کر رہے ہیں۔ اور یہ بات دل نشیں کر لیں اردو کی بقاء کے لئے ہم کو پورے آب و تاب کے ساتھ جدو جہد کرنا ہے۔میں آپ لوگوں سے یہ التجاء کررہی ہوں اور ناگواری کے لئے معافی کی خواشتگار ہوں۔پھر لکھوں گی نرم گرم سرد تلخ و شیریں..........
****
نغمہ ناز مکتومیؔ