غزلیں
مظفرؔ حنفی
نشاں دیں گے ، نقوشِ پا نہ چھوڑو
کچل دے گی ہَوا ، رستا نہ چھوڑو
بسائے جارہے ہو شہر پر شہر
کہیں جنگل کہیں ویرانہ چھوڑو
بھری بستی میں وحشت ناچتی ہے
یہاں لاکر کوئی دیوانہ چھوڑو
اندھیرا تھا تو اتنا بچ رہا ہوں
اُجالے میں مجھے تنہا نہ چھوڑو
کنارے سے َ چھٹی ِ حس چیختی ہے
کہ خطرہ ہے ابھی دریا نہ چھوڑو
سبق لو حاشیہ آرائیوں سے
بیاضوں کے ورق سادا نہ چھوڑو
جدھر دیکھو بگولے اُٹھ رہے ہیں
خیالِ طرّۂ لیلیٰ نہ چھوڑو
صداقت کی زباں میں سُوئی دے کر
مِلے جب تک من و سلویٰ نہ چھوڑو
بہت لکھنے سے گھبراکر مظفرؔ
مصیبت میں غزل کہنا نہ چھوڑو
****
پا بہ زنجیر ہیں بے باک صدائیں کیسی
قید ہیں شہرِ تمنّا میں ہَوائیں کیسی
ہم نے چہرے تو نقابوں میں ُ چھپا رکھے تھے
آئینوں میں نظر آتی ہیں بلائیں کیسی
سانس لیجیے تو کماں زخم کی تن جاتی ہے
صرف جینے کا قصور اور سزائیں کیسی
دیوتا پھر سے بلوتے ہیں سمندر شاید
ورنہ دھرتی پہ ہر اِک سمت وبائیں کیسی
پاس پہنچے تو وہی صفر الف کے اوپر
دُور سے تھیں یہی خوش رنگ قبائیں کیسی
ہاتھ سے ہاتھ نہ جاتا رہے گمراہی کا
کیا پتہ آپ نئی راہ بتائیں کیسی
کوئی گردن زدنی ہو تو ہزاروں حیلے
بخشنا ہی کوئی چاہے تو خطائیں کیسی
ہر طرف اپناہی چہرہ نظر آتا ہے مجھے
اوڑھ لیں میری نگاہوں نے دِشائیں کیسی
’’ترش غزلیں بھی مظفرؔ کی مزا دیتی ہیں‘‘
میرے بارے میں یہ چلتی ہوئی رائیں کیسی
مظفرؔ حنفی