غزل
مشتاق راز
زباں فروش غضب کا کمال رکھتے ہیں
ہوس کا حرص کا لہجے میں جال رکھتے ہیں
اُنھیں کو دیتی ہے دنیا سند شرافت کی
جو اپنے ساتھ کئی بد خصال رکھتے ہیں
کبھی کسی پہ نہیں کرتے طنز کی بارش
جو ظرف والے ہیں اتنا خیال رکھتے ہیں
غلط کمائی سے ہم پیٹ بھر نہیں سکتے
دعا میں حاجتِ رزقِ حلال رکھتے ہیں
خدا نے بخشی ہے دولت ہمیں قناعت کی
مصیبتوں میں بھی چہرے بحال رکھتے ہیں
بنائے بیٹھے ہیں جو شان میرؔ و مرزاؔ کی
وہی بیاض میں مانگے کا مال رکھتے ہیں
ہمارے بارے میں اے رازؔ کوئی کچھ بھی کہے
فقیرِ وقت ہیں سب کا خیال رکھتے ہیں