غزلیں
سہیل ثاقب
Dammam, Saudi Arabia
مانا مکیں بُرے ہیں مگر گھر برا نہیں
ثاقب ہمارے شہر کا منظر برا نہیں
جو اپنے ساتھ لے کے گیا تھا ہر ایک شخص
اُس کا دلوں میں خوف تھا محشر برا نہیں
اس دورِ بے حسی میں یہ حیرت کی بات ہے
آئینہ کہہ رہا تھا کہ پتھر برا نہیں
الزام خود کو دو جو نہیں بن سکا ہے کام
نیت کا ہے قصور مقدر برا نہیں
دن بھر تو سم رسیدہ ہوائوں میں میں رہا
سو لوٹ کے جانے کو مرا گھر برا نہیں
توڑی تھی کس نے نائو یہ معلوم کیجیے
کشتی کو ہے یقیں کہ سمندر برا نہیں
کرتے بھی کیا کہ یادوں کی ہم دسترس میں تھے
ورنہ ہمارے سونے کا بستر برا نہیں
ثاقب رکے ہیں خوف سے کیوں میرے ہمسفر
رستے یہ کہہ رہے ہیں کہ رہبر برا نہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عام ہو خاص ہو تم یہ نہیں پہچانتی ہے
موت آتی ہے تو رُتبہ نہیں پہچانتی ہے
کاش اِس بات کا اندازہ ہمیں ہو جاتا
جب بُرا وقت ہو دنیا نہیں پہچانتی ہے
روکنا چاہو بھی تو روک نہیں سکتے ہو
یہ ہوا وہ ہے جو رستہ نہیں پہچانتی ہے
عصرِ حاضِر مجھے کس موڑ پہ لے آیا ہے
زندگی اپنا ہی چہرا نہیں پہچانتی ہے
کون کِس کے ہے مقابل سرِ میدانِ وفا
دل کی بازی کوئی رشتہ نہیں پہچانتی ہے
زندگی چاند کی کرتی ہے پرستش لیکن
اپنی قسمت کا ستارہ نہیں پہچانتی ہے
اُس کو تو اپنی روانی سے غرض ہوتی ہے
موجِ دل کوئی کنارہ نہیں پہچانتی ہے
اُس کو مطلب ہے فقط اپنی غرض سے ثاقب
میری دنیا مرا لہجہ نہیں پہچانتی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭